• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر تم نے ایسا کیا تو تم میری طرف سے آزاد ہو

استفتاء

آپ سے مجھے میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بارے میں مسئلہ پوچھنا ہے ۔میری شادی مقبول احمد سے مورخہ 19-01-1997کو ہوئی ۔شادی کے بعد وہ روزگار کے لیے فرانس چلے گئے ۔وہ مئی 2006تک سال بعد مہینہ دو مہینہ کے لیے پاکستان  آتے تھے اور واپس فرانس چلے جاتے تھے ۔اس دوران ہمارے دو بچے پیدا ہوئے ہمارے درمیان اکثر لڑائی جھگڑا رہتا تھاکیونکہ ان کے بیرون ملک ہو نے کی وجہ سے ہر طرح کی گھریلو ذمہ داری مجھ پر ہی تھی ۔

ایک دفعہ فون پر انہوں نے مسیج کیا کہ اگر تم گھر سے باہر قدم نکالو گی تو میری طرف سے  آزاد ہو ۔مجھے ایک دفعہ بچے کو شدید بیمار ہونے کی وجہ سے ہسپتال لے جانا پڑا تو انہوں نے سخت لڑائی کی اور فون پر کہا کہ تم میری غیر موجودگی میں گھر سے باہر کیوں گئی ۔پھر ایک وقت ایسا  آیا انہوں نے میرا اور بچوں کا خرچہ دینا بند کردیا ۔تو میں نے عدالت میں خرچے کا دعوی دائر کر دیا ۔

2010میں وہ پاکستان  آئے ہوئے تھے او ر عدالت میں بچوں سے ملاقات کے دوران انہوں نے میرے سامنے اپنی والدہ سے کہا کہ ’’ماں میں نے اس عورت کو طلاق دی ہوئی ہے ‘‘پھر ایک دفعہ انہوں نے موبائل مسیج بھیجا جس میں لکھا تھا کہ جس دن تم نے فون اٹھالیا میں تمہیں دوسری طلاق دے دوں گا ۔اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی موقعوں پر کہا کہ میں اپنی ماں کے ساتھ زنا کروں جو تمہیں طلاق نہ دوں ۔

2010کے بعد  آج تک  آٹھ سال ہوئے واپس پاکستان نہیں  آئے ۔برائے مہر بانی قر آن وسنت کی روشنی میں جواب دیجئے کہ مذکورہ بالا تحریر کردہ باتوں سے مجھے طلاق شرعی ہو چکی ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک بائنہ طلاق ہو چکی ہے جس کی وجہ سے پہلا نکاح ختم ہو چکا ہے ۔

توجیہ:

شوہر نے فون پر میسج کیا کہ ’’اگر تم گھر سے باہر قدم نکالوگی تو میری طرف سے  آزاد ہو ‘‘یہ میسج اگر چہ کتا بت غیر مرسومہ کی شکل میں ہے جس کی وجہ سے طلاق نیت پر موقوف ہونی چاہیے اور شوہر نے یہ میسج طلاق کی نیت سے کیا تھایا طلاق کی نیت نہ تھی اس کاکچھ تذکرہ نہیں ۔لیکن جب شوہر نے عدالت میں بچوں سے ملاقات کے دوران یہ اقرار کیا کہ ’’ماں میں نے اس عورت کو طلاق دی ہوئی ہے ‘‘ تو اس اقرار سے معلوم ہو ا کہ شوہر نے وہ میسج طلاق ہی کی نیت سے کیا تھا ورنہ تو شوہر کا یہ اقرار کذب پر محمول ہو گا اور اس اقرار کو صدق پر محمول کرنا چونکہ ممکن ہے اس لیے کذب پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved