• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’اگر تم نے گھر سے باہر قدم نکالا تو تمہیں طلاق ہے‘‘کہنے کا حکم

استفتاء

میرا نام*** ہے اور لندن میں رہتی ہوں،13نومبر2022کو میرے شوہر نے غصے میں مجھے کہا کہ’’اگر تم نے گھر سے باہر قدم نکالا تو تمہیں طلاق ہے‘‘اور ساتھ ہی کہا کہ’’ میری کے اجازت کے بغیر‘‘ ۔آج24جنوری ہے اور میں گھر سے باہر نہیں گئی۔اس سے پہلے2020میں بھی میرے شوہر نے ایسے الفاظ استعمال کئے تھے کہ’’اگر تم نے گھر سے باہر قدم نکالا تو تمہیں طلاق ہے‘‘اس وقت  ’’میری اجازت کے بغیر‘‘ کے الفاظ نہیں بولے تھے تب ہماری ایک مفتی صاحب سے بات ہوئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ’’ بیوی ایک بار باہر چلی جائے،پھر آپ دونوں رجوع کرلینا،مگر آئندہ 2طلاقوں کا حق باقی رہے گا‘‘۔ پھر میں شوہر کوبتا کر گھر سے باہر نکل  کر واپس آگئی اور ہمارا رجو ع ہوگیا۔اب 13نومبر والی بات کے بعد میرے لئے کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:13نومبر والے واقعہ میں کیا الفاظ کہے تھے؟ترتیب کے ساتھ پورا جملہ بتائیں۔

جواب وضاحت:13نومبر کو انہوں نے کہا تھا کہ’’اگر تم نے گھر سے باہر قدم نکالا تو تمہیں طلاق ہے میری اجازت کے بغیر‘‘۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر ہمیشہ کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت دیدے تو شرط ختم ہوجائے گی اور گھر سے نکلنے کی صورت میں کوئی طلاق واقع نہ ہوگی لیکن جب تک شوہر ہمیشہ کے لیے اجازت نہیں دیتا اس وقت تک آپ جب بھی  اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلیں گی تو ایک رجعی  طلاق واقع ہوجائے گی جس کے بعد  دوران عدت شوہر کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا البتہ  رجوع کے بعد شوہر  کے لیے آئندہ صرف ایک طلاق کا حق باقی رہ جائے گا، اور اسی صورت میں  اگر آپ ہر دفعہ شوہر کی اجازت کے ساتھ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

نوٹ:شوہر کی اجازت کے بغیر ایک مرتبہ گھر سے نکلنے پر طلاق واقع ہونے کے بعدشرط ختم ہوجائے گی لہٰذا اس کے بعد  دوسری یا تیسری مرتبہ گھر سے بلا اجازت نکلنے کی صورت میں تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی ۔

فتاوی عالمگیری(420/1) میں ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق

الجوہرۃ النیرۃ(50/2) میں ہے:

‌وإذا ‌طلق ‌الرجل ‌امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض

شامی(352/3) میں ہے:

(‌وفيها) ‌كلها (‌تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما فإنه ينحل بعد الثلاث) لاقتضائها عموم الأفعال

(قوله أي تبطل اليمين) أي تنتهي وتتم، وإذا تمت حنث فلا يتصور الحنث ثانيا إلا بيمين أخرى لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة نهر (قوله ببطلان التعليق) فيه أن اليمين هنا هي التعليق

الدر المختارط امدادیہ(550/5)میں ہے:

(لا تخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي(شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةدين وتنحل يمينه بخروجها مرة بلا إذن، ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه، ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد وعليه الفتوى.

وفى الشامية:(قوله شرط للبر لكل خروج إذن) للبر متعلق بشرط، ولكل متعلق بنائب الفاعل وهو إذن لا بشرط لئلا يلزم تعدية فعل بحرفين متفقي اللفظ والمعنى أفاده القهستاني، ثم لا يخفى أن اشتراط الإذن راجع لقوله إلا بإذني أما ما بعده فيشترط فيه الأمر أو العلم أو الرضا، وإنما شرط تكراره لأن المستثنى خروج مقرون بالإذن فما وراءه داخل في المنع العام لأن المعنى لا تخرجي خروجا إلا خروجا ملصقا بإذني، قال في النهر: ويشترط في إذنه لها أن تسمعه وإلا لم يكن إذنا وأن تفهمه، فلو أذن لها بالعربية ولا عهد لها بها فخرجت حنثت، وأن لا تقوم قرينة على أنه لم يرد الإذن.

بدائع الصنائع(3/70) میں ہے:

لو قال: أنت طالق إن خرجت من هذه الدار إلا بإذني أو بأمري أو برضائي أو بعلمي أو قال: إن خرجت من هذه الدار بغير إذني أو أمري أو رضائي أو علمي فهو على كل مرة عندهم جميعا، وههنا ثلاث مسائل: إحداها: هذه، والثانية: أن يقول أنت طالق إن خرجت من هذه الدار حتى آذن لك أو آمر أو أرضى أو أعلم والثالثة: أن يقول أنت طالق إن خرجت من هذه الدار إلا أن آذن لك أو آمر أو أعلم أو أرضى أما المسألة الأولى فالجواب ما ذكرنا أن ذلك يقع على الإذن في كل مرة حتى لو أذن لها مرة فخرجت ثم عادت ثم خرجت بغير إذن حنث

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved