• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر تمہارے بہن بھائی میرے گھر آئے تو تمہیں میری طرف سے تین مرتبہ طلاق ہے

استفتاء

میرا بھائی*** جس کی شادی کو چودہ سال ہو ئے ہیں اور چار بچے ہیں، انہوں نے آج سے دو سال پہلے گھریلو جھگڑے کے دوران غصے میں بیوی کو ایک ہی جملہ دو سے تین مرتبہ کہا "اگر تمہارے بہن بھائی میرے گھر آئے تو تمہیں میری طرف سے تین مرتبہ طلاق ہے۔” غصہ ٹھنڈا ہونے پر ایک مفتی صاحب کے پاس گئے تو انہوں نے کہا اگر گھر بدل لیں تو کوئی مسئلہ نہیں (لیکن اس کا کوئی تحریری ثبوت نہیں) اور وہ مطمئن ہو کر گھر ڈھونڈنے لگے۔ اسی دوران ان کی بیوی کے بہن بھائی ان کے گھر آئے اور کھانا کھا کر گئے، انہوں نے گھر بدل لیا اور اکٹھے رہنے لگے۔

اب دو سال بعد ان کی بیوی نے مسئلہ اٹھایا ہے کہ ان کا دل مطمئن نہیں۔ بھائی نے اہل حدیث کے ایک مفتی صاحب سے فتویٰ لیا جس کے مطابق طلاق نہیں ہوئی اور بھائی نے دیوبندی مسلک کے مفتی صاحب سے فتویٰ لیا جس کے مطابق طلاق ہو گئی۔ دونوں اپنی جگہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہے ہیں۔ اب ایسی حالت میں کیا کیا جائے؟ کیا کوئی درمیانی راستہ نکلتا ہے؟ اگر کوئی کفارہ ادا کر کے ان کا گھر بچا لیا جائے تو کیا معاملہ ہو گا؟ ہمیں (بہن بھائیوں کو) اس معاملے میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیونکہ دونوں مفتیان حضرات نے قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیا ہے اور ہم دونوں کو مانتے ہیں۔ برائے مہربانی آپ کسی عالم سے مشورہ کر کے اس مسئلے کا حل (تحریری طور) پر تجویز کریں تاکہ ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ لوگ بیوی کے بہن بھائیوں کے گھر آنے سے پہلے پوچھتے تو خلاصی کی آسان صورت موجود تھی، اب تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے نکاح مکمل طور سے ختم ہو گیا اب نہ صلح ہو سکتی ہے اور نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے۔

رجل قال إن أدخلت فلاناً بيتي فامرأته طالق لا يحنث في يمينه ما لم يدخل فلان بأمر الحالف و لو قال إن دخل فلان بيتي فدخل فلان بإذن الحالف أو بغير إذنه بعلمه أو بغير علمه كان الحالف حانثاً في يمينه كذا في فتاوی قاضيخان. (هندية: 1/ 435) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved