• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

"اگر ظہر کی اذان تک گھر نہ آئی تو تجھے طلاق، طلاق”کہنے کا حکم

استفتاء

گزشتہ 6 رمضان المبارک کو بیوی بغیر اجازت  کے اپنی پھوپھی(میری خالہ) کے گھر چلی گئی، جب رات گزر گئی تو اگلے دن خاوندبیوی کی  پھوپھی کے گھر گیا اور بیوی کو کہا کہ اپنے گھر واپس آ جاؤ۔ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی، شوہر نے بیوی کو مارا پیٹا اور کہا کہ "اگر ظہر کی اذان تک گھر نہ آئی تو تجھے طلاق ہے” تو مجھ پر "طلاق ہو” یعنی دو دفعہ طلاق کا جملہ کہا۔خالہ نے مجھے کہا کہ آپ گھر جاؤ، شور مت کرو، بیوی گھر پہنچ جائے گی۔ شوہر نے خالہ کو کہا کہ اس کو سمجھاؤ، گھر چلی جائے ورنہ پھر مطلقہ ہو جائے گی، اور اس سے مراد  خالہ کو مذکورہ دو طلاقوں کی خبر دینا تھی کہ اسے سمجھاؤ تاکہ طلاق واقع نہ ہو۔برائے مہربانی مسئلہ کی وضاحت فرمائیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟

شوہر کا موقف:

دارالافتاء سے فون کے ذریعے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مذکورہ صورتحال کی تصدیق  کی اور بتایا کہ میں نے دو طلاقیں معلق کی تھیں اور یہ بھی کہا کہ  بیوی ظہر تک گھر نہیں آئی تھی۔

نوٹ:از دارالافتاء بیوی سے مؤقف لینے کے لیے جو رابطہ نمبر دیا گیا اس  نمبر کے ذریعہ  بیوی سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ بقول شوہر وہاں سگنل کا مسئلہ ہے ،لہٰذا اگر بیوی کا بیان اس سے مختلف ہوا تو یہ جواب کالعدم ہوگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً شوہر نے یہی جملہ استعمال کیا تھا  جو سوال میں لکھا ہے اور اس کے علاوہ شوہر نے  کبھی طلاق نہیں دی تھی  تو مذکورہ صورت میں دو رجعی طلاقیں  واقع ہو چکی ہیں، جن کا حکم یہ ہے کہ عدت میں رجوع کرنے سے رجوع ہوجائے گا اور اگر عدت میں رجوع نہ کیا  تو عدت پوری ہونے پر نکاح ختم ہوجائے گا جس کے بعد اکٹھے رہنے کے لیے  میاں بیوی کو باہمی رضامندی سے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ: رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو ایک طلاق کا اختیار حاصل ہوگا۔

توجیہ:جب طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کیا جائے تو شرط کے پائے جانے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں شوہر نے طلاق کو "ظہر کی اذان تک گھر نہ آنے پر” معلق کیا تھا اور  بیوی ظہر کی اذان تک گھر نہیں آئی تھی  اس لیے شرط پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوگئی  اورچونکہ  شوہر نے طلاق کے صریح الفاظ استعمال کیے تھے اس لیے دو رجعی طلاقیں واقع  ہوگئیں۔

عالمگیری (1/420) میں  ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

ہندیہ(1/ 430) میں ہے:

«رجل قال لامرأته: ‌اكرامشب نزديك من نيائي فأنت طالق فجاءت إلى الباب ولم تدخل تطلق»

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:

أما الطلاق الرجعى فالحكم الأصلى له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم اصلى له لازم حتى لا يثبت للحال وانما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فان طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

ہدایہ(2/409)میں ہے:

و اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها فى العدة و بعد انقضائها لأن حل المحلية باق

در مختار (5/42) میں ہے:

”وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع“

الدر المختار (4/450) میں ہے:

ومن الالفاظ المستعملة، الطلاق ‌يلزمني، والحرام ‌يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف

 وفي الشامية: ففي الذخيرة وعن ابن سلام فيمن قال: إن فعلت كذا ‌فثلاث ‌تطليقات علي أو قال علي واجبات يعتبر عادة أهل البلد ………… وقال: أقول الحق. الوقوع به في هذا الزمان لاشتهاره في معنى التطليق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved