• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک زبانی طلاق کے بعد طلاق کے تین نوٹس تیار کروانے کا حکم

استفتاء

جنابِ عالی گزارش ہے کہ میاں بیوی کے درمیان لڑائی، گالم گلوچ، تلخ کلامی ہوئی تو شوہر نے بیوی کو کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ اور ان کا تمام سامان دے کر گھر سے نکال دیا۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت ایک بیٹی 21 سالہ اور ایک بیٹا 12 سالہ اور ایک ہمسایہ 18 سالہ وہاں موجود تھا۔ اس کے بعد صلح نہیں ہوئی تھی کہ تقریبا 10 دن بعد شوہر نے تین سٹام تیار کروائے اور ایک وقت میں تینوں پر دستخط کرکے انگوٹھے لگادیئے لیکن بیوی کو ایک بھی نہیں بھیجا گیا۔ پہلے طلاقنامے پر 2022/06/10 کی تاریخ درج ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے طلاقنامے پر تاریخ درج نہیں۔ شوہر بالکل ان پڑھ ہے اور اسے طلاقناموں کی عبارت کا علم نہیں تھا البتہ اسے اتنا معلوم تھا کہ یہ طلاقنامے ہیں۔ اب تقریبا 20 دن کے بعد راہِ راست پر آنا چاہتے ہیں۔ ان کے تین بچے ہیں، ان کی اور رشتہ داروں کی کوشش ہے کہ صلح ہوجائے۔مجھے ایک قاری صاحب نے کہا ہے کہ گنجائش باقی ہے کیونکہ ایک دفعہ اکٹھی تین طلاقناموں سے طلاق دینے سے تین نہیں ہوں گی بلکہ ایک مہینے میں جتنی بھی دی جائیں ایک طلاق ہی ہوتی ہے۔ براہِ مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہماری صلح کس طرح ہو گی؟ طلاقناموں کی کاپی ساتھ لف ہے۔

پہلے طلاقنامے کی عبارت:

’’بڑی سوچ وبچار کے بعد من مقر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ من مقر کا گھر آباد نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں اپنا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے مسماۃ مذکوریہ کو اپنے حقِ زوجیت سے الگ کرتا ہوں اور طلاقِ اول دیتا ہوں۔ مورخہ: 2022/06/10‘‘

دوسرے طلاقنامے کی عبارت:

’’بڑی سوچ وبچار کے بعد من مقر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ من مقر کا گھر آباد نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں اپنا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے مسماۃ مذکوریہ کو اپنے حقِ زوجیت سے الگ کرتا ہوں اور طلاقِ دوئم دیتا ہوں۔ مورخہ: ______‘‘

تیسرے طلاقنامے کی عبارت:

’’بڑی سوچ وبچار کے بعد من مقر اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ من مقر کا گھر آباد نہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے میں اپنا شرعی حق استعمال کرتے ہوئے مسماۃ مذکوریہ کو اپنے حقِ زوجیت سے الگ کرتا ہوں اور طلاق دیتا ہوں اور لفظِ طلاق تین بار استعمال کرتا ہوں۔ طلاق طلاق طلاق۔ اس تحریر کی رو سے مذکوریہ میرے حق زوجیت سے آزاد وفارغ ہے۔۔۔ مورخہ: ______‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں لڑائی کے دوران شوہر نے جب بیوی سے کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔ اس کے تقریبا 10 دن بعد شوہر نے جب طلاق نامے بنوائے تو چونکہ اس نے ان پر دستخط کرکے نشانِ انگوٹھا لگا دیا تھا اس لیے ان طلاقناموں میں مذکور طلاق کے صریح الفاظ سے الصریح یلحق الصریح والبائن کے تحت دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی نیز اگر چہ یہ طلاقنامے بیوی کو نہیں بھیجے گئے لیکن چونکہ طلاقناموں میں لکھی ہوئی عبارت میں طلاقناموں کے بیوی تک پہنچنے پر طلاق کو معلق نہیں کیا گیا بلکہ کسی شرط کے بغیر طلاق کے الفاظ درج ہیں اس لیے دستخط کرتے ہی طلاقیں واقع ہوگئیں۔

نیز واضح رہے کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں چاہے اکٹھی ایک مجلس میں دی جائیں یا الگ الگ مجالس میں، اسی طرح چاہے ایک مہینے میں دی جائیں یا الگ الگ مہینوں میں۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔

مسلم شریف (2/962 حدیث نمبر 1471 ط بشری ) میں ہے:

عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال ……… اما انت طلقتها ثلاثا فقد عصيت ربك فيما امرك به من طلاق امرأتك وبانت منك

’’نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے (اکٹھی تین طلاقیں دینے والے سے کہا ) تم نے اپنی بیوی کو (اکٹھی )تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں جو تمہارے رب کا حکم (بتایا ہوا طریقہ) ہے اس میں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔‘‘

ابو داؤد شریف(1/666 حدیث نمبر 2197 ط بشری) میں ہے:

عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال: انه طلق امراته ثلاثا. قال: فسكت حتى ظننت انه رادها اليه.

 ثم قال: ينطلق احدكم فيركب الحموقة  ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس وان الله قال (ومن يتق الله يجعل له مخرجا ) وانك لم تتق الله فلا اجد لك مخرجا عصيت ربك وبانت منك امراتك

’’مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص  ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو(اکٹھی)  تین طلاقیں دے دی  ہیں تو (کیا گنجائش ہے اس پر) عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ (حضرت کوئی صورت سوچ کر ) اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے اور (تین طلاقیں  دے بیٹھتا ہے ) پھر آکر کہتا ہے اےابن عباس اےابن عباس (کوئی راہ نکالیئے کی دہائی دینے لگتا ہے ) حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ومن یتق الله یجعل له  مخرجا(جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں۔)‘‘

تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا  (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ  کی بات ہے) تو میں تمہارے لئے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تین طلاقیں دے کر) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔‘‘

علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ تعالی صحیح بخاری شریف کی شرح عمدۃ القاری (جلد1، صفحہ 232)میں تحریر فرماتے ہیں:

حيث قال مذهب جماهير العلماء من التابعين و من بعدهم منهم الأوزاعي و النخعي و الثورى و ابوحنيفة و أصحابه و مالك و أصحابه والشافعي و أصحابه و احمد و أصحابه و إسحاق و ابوثور و ابوعبيدة و آخرون كثيرون على أن من طلق امرأته ثلاثا يقعن و لكنه يأثم

مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح (جلد6 صفحہ 293) میں ہے:

قال النووى "اختلفوا فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي وأحمد وابوحنيفة والجمهور من السلف و الخلف يقع ثلاثا

وفيه وأيضا: وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث (جلد 3 صفحه 330)

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

در مختار (4/528- 531) میں ہے:

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة

در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:

[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل

قوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق

بدائع الصنائع  (3/173) میں ہے:

ثم إن كتب على الوجه المرسوم ولم يعلقه بشرط بأن كتب أما بعد يا فلانة فأنت طالق وقع الطلاق عقيب كتابة لفظ الطلاق بلا فصل لما ذكرنا أن كتابة قوله أنت طالق على طريق المخاطبة بمنزلة التلفظ بها وإن علقه بشرط الوصول إليها بأن كتب إذا وصل كتابي إليك فأنت طالق لا يقع الطلاق حتى يصل إليها لأنه علق الوقوع بشرط الوصول فلا يقع قبله

رد المحتار (4/443) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved