• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

الفاظ کنائی اور ان سے طلاق واقع ہونے کی شرائط

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ کافی عرصے سے گونا گوں مصروفیات کے بسبب بندہ خط و مراسلت سے قاصر رہا اس پر آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ ایک عرصے سے آپ کی صحت و عافیت دریافت کرنے  کے لیے خط لکھنے کا سوچ رہا تھا۔ فی الحال ایک فقہی مسئلہ سے متعلق استفسار کی نوبت آئی تو اس کے ہی ذیل میں کام بھی ہو گیا۔

آپ سے طلاق کے ایک مسئلے سے متعلق چند جزئیات پر سوال کرنا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ الفاظِ کنائی کیا ہیں؟ اور الفاظ کنائی سے طلاق واقع ہونے کی کیا شرائط ہیں؟ فقہاء کے کلام میں اس بارے میں کچھ ابہام و تضاد سا معلوم ہوتا ہے، مثلاً بعض ایسے کلمات جو طلاق میں شمار نہیں بلکہ تقریباً صراحتاً طلاق پر دالّ ہیں انہیں نیت کے باوجود بھی الفاظِ طلاق میں شمار نہیں کرتے اور ان سے طلاق کے عدم وقوع کا قول کرتے ہیں اور دوسری طرف بعض ایسے الفاظ جن میں بظاہر طلاق کا شائبہ بھی نہیں انہیں الفاظِ طلاق میں شمار کر لیتے ہیں، مثلاً کوئی شخص غصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے "ایک، دو، تین؂[1]” کہتا ہے تو بعض حضرات کے نزدیک (جیسا کہ ہمارے پاک و ہند کے اردو فتاویٰ میں اسی پر فتویٰ ذکر ہے کہ) ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی اس پر بحث کی ہے۔

دوسری طرف بعض دیگر الفاظ مثلاً "ما أنت لي بامرأة” (تو میری بیوی نہیں)، "لا حاجة لي فيك” (مجھے تیری ضرورت نہیں)، "لا رغبة لي فيك” (مجھے تجھ میں کوئی رغبت نہیں) ([2])ان الفاظ سے باوجود نیت کے بھی طلاق واقع نہ ہونے کی تصریح موجود ہے۔ مثلاً ہندیہ میں ہے:

قد اتفقوا جميعاً أنه لو قال و الله ما أنت لي بامرأة أو لست و الله لي بامرأة فإنه لا يقع شيئ و إن نوی و لو قال لا حاجة لي فيك ينوي الطلاق فليس بطلاق.[3] (هندية: 1/ 375)

اسی طرح شامی میں ہے:

تعريف الكناية ليس علي إطلاقه، بل هو مقيد بلفظ يصح خطابها به و يصلح لإنشاء الطلاق الذي أضمره أو للإخبار بأنه أوقعه كأنت حرام إذ يحتمل لأني طلقتك أو حرام الصحبة، كذا بقية الألفاظ …. فليس كل ما يحتمل الطلاق من كنايته بل بهذين القيدين و لا بد من ثالث هو كون اللفظ مسبباً عن الطلاق و ناشئاً عنه كالحرمة في أنت حرام و نقل في البحر عدم الوقوع بلا أحبك، لا أشتهيك، لا رغبة لي فيك و إن نوی، ووجهه أن معاني هذه الألفاظ ليست ناشئة عن الطلاق لأن الغالب الندم بعده فتنشأ المحبة و الاشتهاء و الرغبة بخلاف الحرمة فإذا لم يقع بهذه الألفاظ مع احتمال أن يكون المراد لأني طلقتك ففي لفظ اليمين بالأولی. (رد المحتار: 3/ 296)

علامہ شامی رحمہ اللہ نے الفاظ کنائی سے طلاق کے وقوع کی تین شرائط اس عبارت میں ذکر فرمائی ہیں اور ” لا رغبة لي فيك” وغیرہ میں اس کا نہ پایا جانا ثابت کیا ہے، اسی طرح ہندیہ کی عبارت میں "و الله ما أنت لي بامرأة” پر طلاق کے عدم وقوع پر اتفاق نقل ہے، اگرچہ نیت کر لے۔

ایک طرف فقہاء کی یہ عبارتیں دوسری طرف مذکورہ الفاظ ہمارے عرف میں تقریباً صریح الفاظ کی طرح ہیں، ان میں علیحدگی اور طلاق کا شائبہ ہی نہیں تقریباً تصریح موجود ہے، لہذا یہ الفاظ "تو میری بیوی  نہیں، مجھے تیری ضرورت نہیں” وغیرہ سے اگر طلاق کی نیت ہو تو کم از کم طلاق واقع ہو جانی چاہیے۔ طلاق کی نیت کے وقت بھی انہیں الفاظِ طلاق شمار نہ کرنا اور دوسری طرف "ایک دو تین” کہنے سے (اگرچہ طلاقِ رجعی 3 بار واقع ہو کر مغلظ ہو جائی گی لیکن) طلاق کا وقوع جبکہ ان الفاظ "ایک، دو، تین” میں تو علیحدگی وغیرہ پر کوئی دلالت ہی نہیں۔ یہ فرق بندے کو درست معلوم نہیں ہو رہا بلکہ بندے کے خیال میں ان مذکورہ الفاظ "مجھے تیری ضرورت نہیں” وغیرہ سے بھی عند النیۃ طلاق کا وقوع ہونا چاہیے۔

لہذا آنجناب سے بندے کی التماس ہے کہ اس سلسلے میں قاعدہ کلیہ اور عباراتِ فقہاء پر تفصیلی نظر فرماتے ہوئے منضبط اصول تحریر فرما دیں جس کے مطابق الفاظ کے طلاق کے لیے کنائی بن سکنے یا نہ بن سکنے کی تعیین کی جا سکے اور اس اصول میں مذکورہ بالا نوعیت کا تضاد نہ آ رہا ہو نیز فقہاء کا اس طرح بعض صریح علیحدگی پر دالّ الفاظ (جیسا کہ شامی رحمہ اللہ نے احتمالِ طلاق کا اقرار کیا ہے) کا مع النیۃ بھی مفیدِ طلاق نہ ہونے کے قول پر نظر فرمائیں کہیں یہ قول تو محلِّ نظر نہیں؟ نیز اس مسئلے میں تحقیقی جواب تحریر فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں۔

حضرت والا کو تکلیف دینے کی معذرت اور دعاؤں کی درخواست ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کنایہ الفاظ سے متعلق ضابطہ تو وہی ہے جو علامہ شامی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، البتہ بعض الفاظ کے بارے میں اشکال ہے ان کے بارے میں لکھتا ہوں:

"ایک، دو، تین”۔ تنہا ان الفاظ سے طلاق نہیں ہوتی، اگرچہ نیت بھی ہو البتہ ان کے ساتھ طلاق کا لفظ بھی مذکور ہو مثلاً یوں کہا ہو "ایک دو تین” یا "ایک دو تین طلاق دی” الفاظ سے طلاق ہو گی۔ اگر "ایک دو تین” سے شوہر کی یہ نیت ہو کہ تیار ہو جاؤ جیسے انگریزی دوڑ شروع کراتے ہوئے کہتے ہیں One, two, three, Go. تو اس سے ایک طلاق ہو گی ورنہ تین طلاق ہوں گی۔

  "ما أنت لي بامرأة أو لست لك بزوج”

ان الفاظ سے طلاق ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے

و لو قال ما أنت لي بامرأة أو لست لك بزوج و نوی الطلاق يقع عند أبي حنيفة رحمه الله و عندهما لا يقع (هندية1/ 375، 374) لست لك بزوج أو لست لي بامرأة …. طلاق إن نواه. (در مختار: 2/ 471)

ہندیہ سے جو جزئیہ آپ نے نقل کیا ہے اس میں قسم کا لفظ موجود ہے۔

قد اتفقوا جميعاً أنه لو قال و الله ما أنت لي بامرأة أو لست و الله لي بامرأة فإنه لا يقع شيئ و إن نوی

اس بات کو در مختار نے بھی یوں ذکر کیا ہے :

(و لو أكد بالقسم أو سئل أ لك امرأة فقال لا لا تطق اتفاقاً و إن نوی لأن اليمين و السؤال قرينتا إرادة النفي فيها)

علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

(و ذلك لأن اليمين لتأكيد مضمون الجملة الخبرية فلا يكون جوابه إلا خبر و كذا جواب السؤال، و الطلاق لا يكون إلا إنشاء فوجب صرفه إلی الإخبار عن نفي النكاح كاذباً)

( و إن نوی) پر علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

و مثله قوله (يعني جب قسم يا سوال هو) لم أتزوجك أو لم يكن بيننا نكاح أو لا حاجة لي فيك بدائع لكن في المحيط ذكر الوقوع في قوله عند سؤاله قال و لو قال لا نكاح بيننا يقع الطلاق. و الأصل أن نفي النكاح أصلاً لا يكون طلاق بل جحودا و نفي النكاح في الحال يكون طلاقاً إذا نوی و ما عداه فالصحيح أنه علی هذا الخلاف أه بحر.

  1.  لا رغبة لي فيك، لا اشتهيك، لا أحبك

شامی میں ہے:

و نقل في البحر عدم الوقوع …. و إن نوی (2/ 501)

اس کی وجہ خود شامیہ میں یہ مذکور ہے:

و وجهه أن معاني هذه الألفاظ ليست ناشئة عن الطلاق لأن الغالب الندم بعده فتنشأ المحبة و الاشتهاء و الرغبة.

اللہ کریں کہ یہ مختصر جواب آپ کے لیے مفید ہو۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved