• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

طلاقنامہ کی تحریر ’’ اپنے تن پر سہہ بار حرام حرام حرام کہہ کرکے قیدِ نکاح سے آزاد کردیا ہے، اعلانِ طلاق کردیا ہے‘‘  سے طلاق کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام دریں مسئلہ کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے لیے گھریلو ناچاقی کیوجہ سے دو شرعی گواہوں کے رو برو اسٹام پر یہ الفاظ لکھوائے کہ ’’میں نے اپنی بیوی کو اپنے تن پر حرام حرام حرام قرار دے کر قید نکاح سے آزاد کردیا ہے اور اعلانِ طلاق کردیا ہے‘‘ تو مذکورہ الفاظ سے کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ کیا لفظ ’’اعلانِ طلاق کر دیا ہے‘‘ سے طلاق ہوگی  یا نہیں اگر ہوگی تو کونسی ہوگی؟ بینواوتوجرو

وضاحت مطلوب ہے کہ: (۱) اسٹام پیپر ارسال کریں، (۲) شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

جوابِ وضاحت: (۱)ارسال کردیا ہے، (۲)یہ دیہات ہے یہاں ان کے پاس فون نہیں ہے۔

اسٹام پیپر پر طلاق کی عبارت:

’’۔۔ مقر نے زوجہ**کو روبرو گواہان حاشیہ اپنے تن پر سہہ بار حرام حرام حرام کہہ کرکے قیدِ نکاح سے آزاد کردیا ہے، اعلانِ طلاق کردیا ہے، میرا مطالبہ نہیں رہا ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔۔۔الخ‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر یہ اسٹام پیپر اس آدمی نے خود بول کر لکھوایا تھا یا کسی اور کا لکھا ہوا اس نے پڑھ لیا تھا یا اسے پڑھ کر سنا دیا گیا تھا الغرض اسے اس تحریر کا علم تھا اور اس نے اپنی رضامندی سے اس پر دستخط کیے تھے تو اس اسٹام پیپر سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے۔ لہٰذا اگر شوہر نے اس کے علاوہ کبھی طلاق نہیں دی یا ایک طلاق دی ہے اور میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

اور اگر اس آدمی اس اسٹام پیپر کے مضمون کا علم نہ تھا بلکہ کوئی دوسری تحریر سمجھ کر دھوکے سے اس پر دستخط کردیئے یا اسے یہ تو معلوم تھا کہ اس میں طلاق لکھی ہے لیکن کسی نے زبردستی اس سے دستخط کروالیے تو ان صورتوں میں تفصیل بتا کر دوبارہ سوال کیا جائے۔

نوٹ: اگر شوہر نے اس کے علاوہ کبھی طلاق نہیں دی تو دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا اور اگر اس پہلے بھی ایک طلاق دے چکا ہے تو دوبارہ نکاح کرنے کے بعد شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں طلاقنامے میں مذکور اس عبارت سے کہ ’’مقر نے زوجہ****کو روبرو گواہان حاشیہ اپنے تن پر سہہ بار حرام حرام حرام کہہ کرکے قیدِ نکاح سے آزاد کردیا ہے‘‘ ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی ہے۔ اس جملہ میں اگرچہ حرام کا لفظ تین دفعہ مذکور ہے لیکن چونکہ اس سے بائنہ طلاق واقع ہوتی ہے لہٰذا ’’لا یلحق البائن البائن‘‘ کے تحت ایک سے زیادہ مرتبہ کہنے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اس کے بعد تحریر میں موجود اس جملے سے کہ ’’اعلانِ طلاق کردیا ہے‘‘ سے بھی مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاق دینے کے بعد اس کا اعلان کرنے سے، پہلے دی ہوئی طلاق کی ہی خبر دینا ہی مراد ہوتا ہے اور طلاق کی خبر دینے سے مزید طلاق واقع نہیں ہوتی۔

رد المحتار (4/443) میں ہے:

وفي التتارخانية:… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه… وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصافتاویٰ مفتی محمود (6/145) میں ہے:’’سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ: نذیر احمد ولد معراج الدین ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی منکوحہ بیوی مسماۃ۔۔۔۔۔ کو بوجہ عدم آبادی بخانہ من مظہر اور بوجہ تنازعہ نامساعد حالات طلاق دے کر آزاد کرتا ہوں، اب مسماۃ مذکورہ بعد گزارنے میعاد عدت تین ماہ نوے دن جہاں چاہے اپنی مرضی سے نکاحِ ثانی کرلے لہٰذا طلاق نامہ بذریعہ رجسٹری بنام مسماۃ مذکورہ بھیج رہا ہوں تاکہ سند رہے۔

اس کے بعد 68/03/21 کو**د مذکور نے پھر ایک تحریر میں یہ فقرہ لکھا کہ میں نے خاتون بی بی کو طلاق دے کر آزاد کردیا ہوا ہے۔ براہِ نوازش احکامات شرعیہ کی روشنی میں واضح فرمایا جاوے کہ بیان کردہ معاملات کی رو سے نیز طلاقنامہ منقولہ بالا عبارت کی تحریر کی بناء پر سائلہ پر طلاق رجعی پڑتی ہے یا طلاق بائن۔۔۔۔الخ

جواب: صورتِ مسئولہ میں ** کے الفاظ ’’طلاق دے کر آزاد کرتا ہوں‘‘ سے اس کی بیوی خاتون بی بی پر ایک طلاق بائن واقع ہوئی ہے، عدت شرعی کے بعد بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح کرکے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔‘‘رد المحتار (4/529) میں ہے:قال ح: ولا يرد أنت علي حرام على المفتى به من عدم توقفه على النية مع أنه لا يلحق البائن، ولا يلحقه البائن لكونه بائنا لما أن عدم توقفه على النية أمر عرض له لا بحسب أصل وضعه. اهرد المحتار (4/491) میں ہے:وذكر في البحر ……. عن البزازية: أنت علي حرام ألف مرة تقع واحدة اهـ ……… قوله ألف مرة بمنزلة تكريره مرارا متعددة، والواقع به في أول مرة طلاق بائن، ففي المرة الثانية لا يقع شيء لأن البائن لا يلحق إذا أمكن جعل الثاني خبرا عن الأول، كما في أنت بائن أنت بائن كما يأتي بيانه في الكناياتمحیط برہانی (393/4) میں ہے:وفي «الواقعات»: إذا طلق امرأته ثم قال لها: قد طلقتك أو قال بالفارسية: طلاق دادم ترا دادم ترا طلاق يقع تطليقة ثانية، ولو قال: قد كنت طلقتك أو قال بالفارسية طلاق داده ام ترا لا يقع شيء بالكلام الثانيبدائع الصنائع (3/295) میں ہے:فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديدہدایہ (2/409، باب الرجعۃ) میں ہے:‌‌فصل فيما تحل به المطلقة: "وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلهوفي فتح القدير تحته: قوله: (لأن زواله) مرجع الضمير الحل وضمير فينعدم للزوال.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved