• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنی بیوی کا نام بدل کر طلاق دینا

استفتاء

ایک آدمی نے دوسرا نکاح کیا  اور پہلی   بیوی نے جھگڑا کیا تو پہلی بیوی کو تسلی دینے کے لئے اس نے اپنی دوسری بیوی کومیسج کرکے اس طرح طلاق دی کہ اس میں اس کا نام بھی غلط لکھا اور طلاق دینے کی بھی ہر گز نیت نہیں تھی ۔ مثلا لڑکی کے نکاح نامے پر نام ساجدہ ہے اور گھر میں سب اسےثنا بلاتے ہیں اب شوہر نے طلاق کے الفاظ یوں لکھے ’’ منیر کی طرف سے سنا کو تین طلاق‘‘ اس کے ذہن میں یہ تھا کہ میرا نکاح تو ساجدہ سے ہوا ہے اور’’ ثنا ‘‘نام کو بھی اس نے سنا بنا دیا۔

کیا اس طرح دوسری بیوی کو طلاق ہوگئی ؟ یاد رہے کہ صرف نکاح ہوا ہے رخصتی  نہیں ہوئی اور نکاح کے بعد شوہر بیوی سے نہیں ملا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے دوسری بیوی کومذکورہ میسج کرنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

توجیہ : ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہےاور طلاق کی کتابت مستبینہ غیر مرسومہ اگر  غصہ یا مذاکرہ  طلاق کے وقت  نہ ہو توشوہر کی نیت کے بغیر بیوی کے حق میں طلاق واقع نہیں ہوتی  اور مذکورہ   صورت میں نہ غصہ ہے اور نہ مذاکرہ طلاق ،اس لئے مذکورہ میسج سے کوئی  طلاق واقع نہ ہوگی۔

 

فتاوی النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب اذا كان مستبينا غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع الا بالنية والدلالة.

حاشیہ ابن عابدین (4/442)میں ہے:

"الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرًا ومعنونًا مثل ما يكتب إلى الغائب وغير موسومة أن لايكون مصدرًا ومعنونًا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لايمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لايقع الطلاق وإن نوى وإن كانت مستبينةً لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا فلا، وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved