• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اپنی بیوی کو’’تیری بیوی کو طلاق‘‘کامیسج بھیجنےکا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مذکورہ مسئلہ کے بارے میں کہ ایک دوست دوسرے دوست کو یہ لکھ کر میسج کرتا ہے کہ تیری بیوی کو طلاق۔ اب جس دوست کے پاس یہ میسج آیا ہے وہ یہی میسج یعنی ’’تیری بیوی کو طلاق‘‘اپنی بیوی کو بھیج دیتا ہے۔ جبکہ میسج کرنے والے کی کسی قسم کی طلاق دینے کی نیت نہیں تھی۔ اس صورت میں جس دوست نے اپنی بیوی کو میسج کیا ہے اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جس دوست نے مذکورہ میسج اپنی بیوی کو بھیجا ہے اس کی بیوی کو کوئی طلاق  واقع نہیں ہوئی، کیونکہ طلاق کے وقوع کے لئے بیوی کی طرف طلاق کی نسبت کرنا ضروری ہے  جبکہ مذکورہ صورت میں بیوی کی طرف طلاق کی نسبت نہیں پائی گئی۔

اس کے علاوہ ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابت مستبینہ غیر مرسومہ ہے اور کتابت مستبینہ غیر مرسومہ میں نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، چونکہ مذکورہ صورت میں شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی لہذا اس لحاظ سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہو ئی۔

فتاوی شامی (4/448)میں ہے:

(قوله أو لم ينو شيئا) لما مر أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله كما أفاده في الفتح، وحققه في النهر، احترازا عما لو كرر مسائل الطلاق بحضرتها، أو كتب ناقلا من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ، أو حكى يمين غيره فإنه لا يقع أصلا ما لم يقصد زوجته

فتاوی شامی(442/4)میں ہے:

وان كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق یقع وإلا لا.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved