• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

’’آزادکردوں گا‘‘ کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

گزارش ہے کہ میں ایک مسئلہ کے لئے حاضر ہوا ہوں،چند سال پہلے میرے اور میری بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا جس کی وجہ سے میں نے دو بار طلاق کا لفظ بول دیا تھا،پھرجامعہ اشرفیہ سے  مسئلہ معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ تین طلاقیں نہیں ہوئیں  پھر ہم نے  رجوع کرلیا تھا،تین چار سال کے بعد دوبارہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سےمیں نے غصے سے کہاکہ ’’میں آزاد کردوں گا‘‘  طلاق کا لفظ ادا نہیں کیا ،پھر بڑوں کے سمجھانے سے صلح ہوگئی۔

’’آزاد کردوں گا ‘‘کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں؟برائے مہربانی دین کی روشنی میں مسئلہ کا حل بتادیں۔

بیوی کا بیان:

’’میرے شوہر نے  پہلے دو دفعہ طلا ق دی تھی جس کے بعد ہم نے فتویٰ لیکر  رجوع کر لیا تھا پھر دسمبر 2021 میں  میرے شوہر نے مجھے کہا تھا کہ ’’میں تمہیں کل تیسری بھی دے دوں گا‘‘ یہ کہہ کر میرے شوہر گھر سے نکل گئے اور دو، تین دن بعد واپس آگئے  تھے اور پندرہ دن کے بعد ہمارا تعلق قائم ہوگیا۔ میرے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوا کہ کہیں ہمارا نکاح ختم نہ ہوگیا ہو۔  اس لیے میں تقریباً دو، ڈھائی ماہ سے اپنے والدین کے گھر آگئی ہوں۔ اب ہمارے  نکاح کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، لہٰذا نکاح قائم ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کے مطابق ’’آزاد کردوں گا‘‘  کے جملے  سے یا بیوی کے بیان کے مطابق ’’میں تمہیں کل تیسری بھی دے دوں گا‘‘  کے جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ ان جملوں میں شوہر فی الحال طلاق نہیں دے رہا  بلکہ مستقبل میں طلاق دینے کا وعدہ کررہا ہے  اور طلاق دینے کا وعدہ کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

فتاوی ہندیہ( 384/1،مکتبہ حقانیہ) میں ہے:

في المحيط: لو قال بالعربية: أطلق ،لا يكون طلاقا، إلا إذا غلب استعماله للحال،فيكون طلاقا.

فتاوی تنقیح الحامدیہ(38/1،مکتبہ رشیدیہ) میں ہے:

صيغة ‌المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام

حاشیہ ابن عابدین(547/4)میں ہے:

بخلاف قوله طلقى نفسك فقالت أنا طالق أوأنا أطلق نفسى لم يقع، لأنه وعد.

 

فتاوی دارالعلوم دیوبند( 9/75) میں ہے:

(سو ال  ۱۱۹)زید نے اپنی بیوی ہندہ کو غصہ کی حالت میں تین دفعہ یہ الفاظ کہے کہ میں تجھ کو طلاق دوں گا آیا طلاق ہوئی یا نہ ۔

(الجواب)الفاظ مذکورہ کہنے سے ہندہ پر طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ مستقبل کے لفظ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی۔کذا فی العالمگیريه وغیرها لانه وعد

کفایت المفتی ( 6/286) ميں  ہے:

(سوال )  زید  نے اپنی بیوی سے کسی بات پر کچھ جھگڑا کیا غصہ میں اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ  ابا جی کو اٹھنے دو تو خدا کی قسم تم کو طلاق دوں گا اس کے بعد ان دونوں میں بحث ہوئی بیوی کہتی تھی کہ ابا جی کے اٹھنے پر طلاق ہوگئی کیونکہ مندرجہ بالا الفاظ اس کی بیوی نے سنے تھے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بیوی کہتی ہے کہ پہلے صرف یہ کہا تھا کہ ابا جی کو اٹھنے دو خدا کی قسم تم کو طلاق دوں گا اگر انہوں نے تصفیہ نہ کیا یعنی تصفیہ کا لفظ آخر میں کہاہے۔

(جواب ۲۶۹)  جو الفاظ  عور ت بھی تسلیم کرتی ہے وہ یہ ہیں ’’ ابا جی کو اٹھنے دوخدا کی قسم  تم کو طلاق دوں گا‘‘ ان الفاظ سے طلاق  نہیں پڑ سکتی  نہ بالفعل نہ ابا جی کے اٹھنے پربلکہ ابا جی  کے اٹھنے پر زید پھر طلاق دے تو پڑے ورنہ نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved