• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

باپ کا بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو کم حصہ دینا

استفتاء

ایک شخص نے اپنی زندگی ہی میں اپنے تمام اثاثہ جات منقولہ و غیر منقولہ اپنے بچوں میں تقسیم کر دیے اور  "للذکر مثل حظ الانثیین” کے قاعدے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو نصف دیا اپنی زندگی میں ہر بچے کو جو کچھ حصہ اس کا بنتا تھا خود ادا کر دیا۔

1۔ سوال یہ ہے کہ آیا اپنی زندگی میں بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں آدھا دینے کا شرعاً جواز ہے؟ یا بیٹیوں پر ظلم قرار پائے گا؟

2۔ اب جب کہ سب بیٹیوں نے اپنے اپنے حصے پر قبضہ کر لیا اور والد کی موت تک اس تقسیم پر ناراضگی کا اظہار نہ کیا تو اب بیٹوں کے حصوں میں سے مزید کا مطالبہ کرنے کا کوئی شرعی جواز بنتا ہے؟ اور کیا یہ بیٹیوں کی جانب سے وعدہ خلافی کے زمرے میں نہیں آئے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں باپ کا اپنی زندگی میں اس  طرح تقسیم کرنا جائز ہے بیٹیوں کو اعتراض کا حق نہیں اگرچہ بہتر و مستحب یہی تھا کہ باپ سب کے درمیان برابر برابر تقسیم کرتا۔

ا لمختار التسوية بين الزكر و الأنثی في الهبة.

و إن وهب ماله لواحد جاز قضاءً و هو آثم.

و يكره تفضيل بعض الأولاد علی البعض في الهبة حالة الصحة. إلا بزيادة فضل له في الدين. (البحر الرائق: 7/ 490)

مسئلہ: بعض لوگ چاہتے ہیں کہ اپنی وفات سے پہلے ہی اپنی زندگی میں تمام جائیداد اولاد میں خود تقسیم کر دیں ایسا کرنا جائز ہے اور اگرچہ اس کی گنجائش ہے کہ لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دو گنا دیں، لیکن چونکہ یہ ہبہ و ہدیہ ہے میراث نہیں، اس لیے بہتر و مستحب یہی ہے کہ دونوں کو برابر برابر دیں۔ (مسائل بہشتی زیور، حصہ دوم: 148) فقط و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved