• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بچے کی سرپرستی کا حق

استفتاء

میرے شوہر*** کا انتقال 2007ء میں ہوا اس وقت میرے بچے کی عمر چار سال تھی۔ شوہر کی وفات کے بعد بچے کی کفالت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری میرے والدین پوری کرتے رہے۔ میری دوسری شادی کے بعد یہ ذمہ داری میرے موجودہ شوہر بہت محبت کے ساتھ احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں۔ بچے کی دادا اور دادی وفات پاچکے ہیں اس کا کوئی تایا یا چچا بھی نہیں ہے۔ بچے کی تین پھوپھیاں ہیں جو شادی شدہ اور بفضلہ تعالیٰ صاحب اولاد ہیں۔ بچے کی نانا نانی حیات ہیں اور بچے کا ایک ماموں بھی ہے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ اس بچے کے امور کی سرپرستی کا شرعاً زیادہ حق دار کون ہے ماں یا پھوپھیاں؟ جو اس بچے سے متعلق اہم فیصلے کرنے کا شرعاً اختیار رکھتا ہو مثلاً بچے نے کہاں رہنا ہے؟ کہاں پڑھنا ہے؟ بچے کی مصرف پر کتنا خرچ کیا جائے وغیرہ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ مسئلہ میں بچے کے امور کی سرپرستی کا حق ماں کو ہے۔

فإن لم يوجد أحد من العصبات ولاية النفس إلى الأم ثم باقي ذوي الأرحام. ( الفقه الإسلامي و أدلته: 738)

أقرب الأولياء إلى المرأة الابن … و الأقرب عند أبي حنيفة الأم ثم البنت ثم بنت الابن … ثم العمات ثم الأخوال ثم الخالات. ( عالمگیری: 1/ 283) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved