• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

۱)بچوں کی پرورش کا حق(۲)نکاح میں جو زیور لکھا اس کا حکم(۳)لڑکی سے پیسے لے کر طلاق دینا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں ایک لڑکی جو اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے اس کا خاوند اس کو منانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے لیکن لڑکی بضد ہے کہ مجھے طلاق دے دی جائے لڑکی کے والدین بھی اس کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔

محترم مفتی صاحب !لڑکی کا ایک بچہ بھی ہے جس کی عمر تقریبا ایک سال ہے،لڑکی کے والدین طلاق لینے کے بعد لڑکی کاکسی دوسری جگہ نکاح  کروانا چاہتے ہیں۔ نکاح کے وقت نکاح خواں نے ان کی طرف سے چالاکی کرتے ہوئے دولہے کو  پوچھے بغیر دولہے کی طرف سے پہننے کے لیے دیا گیا پانچ تولہ طلائی زیور بطور ہدیہ دیا،لکھ دیا۔

مفتیان کرام شریعت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتائیں :

۱۔ باپ اپنے بچے کو لینا چاہتا ہے جبکہ لڑکی اور اس کے والدین اپنی لڑکی کا نکاح طلاق کے بعد کرانا چاہتے ہیں کیا آپس کی رضامندی سے بچہ باپ کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟

2۔جوزیور لڑکی کے نکاح خواں نے بطور ہدیہ لکھا اس کا کیا حکم ہے؟

3۔اس صورت میں اگر شوہر عورت سے خلع کرلے اور اس کے بدلے مال لے لے تو کیا اس کے لیے جائز ہے؟ اور کیا یہ مال شوہر کے لیے حلال ہو گا ؟نیز کتنا مال لینے کی اجازت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ شرعا ماں کو یہ حق حاصل ہےکہ وہ  بچے(لڑکے) کو سات سال تک اپنی پرورش میں رکھے اس کے بعد والد کا حق ہو جاتا ہے۔ اگر اس عمر سے پہلے ماں بچے کو سنبھالنے پر تیار نہ ہو یا اس نے دوسری جگہ شادی کرنی ہو تو ماں کا حق نانی کو منتقل ہو جاتا ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر ماں اور نانی دونوں اپنے حق سے دستبردار ہو ں تو والد 7 سال سے پہلے بھی بچے کو اپنی پرورش میں لے سکتا ہے ورنہ نہیں لے سکتا ۔

فی الدر:

الحضانة تثبت للام ثم بعد الام بان ماتت اولم تقبل او اسقطت حقها او تزوجت باجنبی ام الام وان علت عندعدم اهلیة القربی ثم ام الاب وان علت۔۔۔الی۔۔۔ثم العصبات بترتیب الارث فیقدم الاب ثم الجد والحاضنة اما او غیرها احق به ای بالغلام حتی یستغنی عن النساء وقدر بسبع وبه یفتی لانه الغالب۔

2۔ اس زیور کے بارے میں حتمی فیصلہ نکاح نامے کو دیکھنے اور فریقین کے موقف کو  جاننے پر موقوف ہے ،یکطرفہ بات سن کر جواب دینا ممکن نہیں۔

3۔ خلع میں اگر قصور مرد کا ہو تو مرد کو روپیہ اور مال لینا یا جو مہرمرد کے ذمے ہے اس کے عوض خلع کرنا بڑاگناہ  ہے۔اگر کچھ مال  لے لیا تواس کو اپنے خرچ میں لانا بھی حرام ہے ۔اگر عورت ہی کا قصور ہوتو جتنا مہر دیا ہے اس سے زیادہ نہ لینا چاہیے ،بس صرف مہر ہی کے عوض میں خلع کرلے ۔اگر مہر سے زیادہ لے لیا تو بھی خیر بے جاتو ہوا لیکن کچھ گناہ نہیں۔

فی الشامی:۶۰۹/۲

وکره تحریما اخذشئی۔۔۔۔۔ان نشزوان نشزت لاولو منه نشوزایضا ولو باکثر ممااعطاها علی الاوجه فتح وصحح الشمنی کراهة الزیادة وتعبیر الملتقی لاباس به یفید انها تنزیهیة وبه یحصل التوفیق ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved