• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیعانہ دینے کے بعد قبضہ سے پہلے مبیع ہلاک ہوجائے تو کس کا نقصان شمار ہوگا؟

استفتاء

پرندوں کی خریدوفروخت میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص  دوسرے سے پرندہ خریدنے کے لیے بیعانہ کے طور پردس ہزار  10000 روپیہ دے دیتا ہے جبکہ پرندہ کی قیمت ایک لاکھ 100000 ہوتی ہے  اس کے بعد مالک کسی اور کو وہ پرندہ فروخت نہیں کر سکتا اور باقی پیمنٹ کچھ دنوں بعد ادا کی جاتی ہے۔ اور کل قیمت سے پہلے قبضہ بھی نہیں دیا جاتا۔ اب اگر کل قیمت کی ادائیگی سے پہلے ہی پرندہ مر جائے تو یہ نقصان کس کا شمار ہو گا ؟ پرندے کے مالک کا یا خریدار کا؟ یہ ہماری برڈز کمیونٹی کا سوال ہے ۔ مہر شدہ جواب مرحمت فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے :بیعانہ سے کیا مراد ہے ؟ سودا کر لیا جاتا ہے یا خریدنے کا وعدہ کیا جاتا ہے ؟ اور بیعانہ دینے کے بعد اگر پرندہ انڈے دے تو وہ کس کے شمار ہوتے ہیں ؟

جواب وضاحت : بیعانہ سے مراد یہ ہے کہ سودا مکمل کر لیا جاتا ہے مثلا پچاس ہزار روپے میں پھر کچھ رقم فوری وصول کر لی جاتی ہے اور باقی رقم بعد میں ادا کی جاتی ہے ۔ جب تک مکمل رقم کی ادائیگی نہ ہو تب تک قبضہ نہیں دیا جاتا ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جس پرندے کا سودا ہو جائے اس کو ایک پنجرے میں الگ کر دیا جاتا ہے اس سے انڈے حاصل نہیں کیے جاتے ۔ اس لیے ہمارے ہاں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ سودا ہونے کے بعد اگر پرندے نے انڈے دئیے تو وہ کس کے شمار ہوں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ عقد مکمل  ہوچکا ہوتا ہے اور  خریدار نے ابھی قبضہ نہیں کیا  ہوتا اس لیے نقصان پرندے کے مالک کا شمار ہوگا   کیونکہ سامان اگر بیچنے والے کے قبضے میں ہلاک ہوجائے تو  شرعا بیچنے والے کا نقصان شمار ہوتا ہے اور جو قیمت مالک نے وصول کی ہے اس کا   خریدار کو واپس کرنا ضروری ہے۔

رد المحتار (4/ 560) میں ہے:

وفي الفتح والدر المنتقى: لو هلك المبيع بفعل البائع أو بفعل المبيع أو بأمر سماوي، ‌بطل ‌البيع ‌ويرجع ‌بالثمن لو مقبوضا

فتح القدير (6/ 296)میں ہے :

فلو ‌هلك ‌في ‌يد البائع بفعله أو بفعل المبيع بنفسه بأن كان حيوانا فقتل نفسه أو بأمر سماوي بطل البيع، فإن كان قبض الثمن أعاده إلى المشتري

مجمع الانہر شرح ملتقى الأبحر(2/73) میں ہے:

"(هلاك المبيع) لأنها رفع البيع والأصل فيه المبيع ولهذا إذا هلك المبيع قبل القبض يبطل البيع بخلاف هلاك الثمن”.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 332) میں ہے:

«ولو ‌دفع ‌بعض ‌الثمن، وقال للبائع تركته عندك رهنا على الباقي أو قال تركته وديعة عندك لا يكون قبضا اهـ»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved