• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی بچوں کو رہائش دینا

استفتاء

ہماری شادی 1994ء کو ہوئی تھی، اُس وقت ہم اپنے آبائی مکان میں رہ رہے تھے۔ 2018ء کو وہ مکان بیچ دیا گیا، اس کا حصہ 10لاکھ روپے ہمارے حصے میں آیا، نیز میری بیوی کو اپنے والد صاحب کی وراثت میں ایک مکان ملا تھا۔ جس میں ہم 2008ء میں مقیم ہوگئے ، اس مکان پہ کچھ قرضہ بھی تھا، جو تاحال ادا نہیں کیا گیا، نیز اس مکان پر میرے 10لاکھ میں  سے تقریباً نصف خرچ ہوئے ہیں۔ اب میری بیوی کا مطالبہ ہے کہ مکان کا انتظام آپ  کے ذمہ ہے۔ لہٰذا اس مکان کو میں کرایہ پر دے کر اس کا کرایہ خود لوں گی، اور آپ ہمارے لیے الگ کرایہ پر گھر کا انتظام کرکے دیں۔

آپ سے گزارش ہے کہ میں سرکاری ملازم ہوں، گھر کے اخراجات کے علاوہ کرایہ کا انتظام اکیلا نہیں کر سکتا، میرے لیے رہنمائی فرمائیں۔

بیوی کا بیان: میرے شوہر میرے پر بدگمانی کرتے ہیں، میں اگر ایک سالن کی پلیٹ کسی غریب کو کبھی کبھی بھیج دوں تو  غصے ہوتے ہیں اور ماشاء اللہ ، الحمد للہ جاب سے تقریباً 1، ڈیڑھ بجے تک انہیں چھٹی ہوجاتی ہے، پھر یہ کوئی ٹیوشن  وغیرہ بھی پڑھا سکتے ہیں، تاکہ ہماری دو جوان بیٹیوں کی ذمہ داری ادا ہو سکے لیکن یہ اس میں غفلت کرتے ہیں، اس لیے مجھے یہ سب کرنا پڑا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اپنی وسعت کے مطابق بیوی کو ضرورت کی رہائش فراہم کرنا خاوند کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ بیوی اپنا  مکان خاوند کو دینے کی پابند نہیں ہے۔ تاہم یہ ایک اصولی بات ہے ، میاں بیوی کو باہم خوش اسلوبی سے اس معاملے کو حل کرنا چاہئے۔ خاوند کو بھی اپنی معاشی ذمہ داریوں میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور بیوی کو بھی چاہئے کہ خاوند کے ساتھ خیر سگالی کے ساتھ چلے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved