• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کا بھائی کہتا ہے کہ میرے سامنے شوہر نے طلاق کا اقرار کیا اورشوہر انکار کرتا ہے

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ھذا کے بارے میں :

بیوی کا بیان:

(1)  آپس کے جھگڑے کی وجہ سے میں میکے میں تھی شوہر کی فون پر مجھ سے بات ہو رہی تھی شوہر مجھے گھر آنے کا کہہ رہا تھا میں کہہ رہی تھی کہ گھر آ کر خود لے جائیں اسی پر بات بڑھ گئی شوہر نے کہا کہ ’’اگر تو نہیں آئے گی تو میں تجھے طلاق  دے دوں گا‘‘ شوہر نے دو دفعہ یہ الفاظ کہے ۔

( 2)  اس کے بعد 27 فروری یا 3 مارچ 2016 کو شوہر نے میرے بھائی نوید کو یہ میسج کیا کہ:

’’تم نے کہا تھا کہ نوٹس بھیج دینا فارغ کرنے کے اب میں خود تمہاری بہن کو طلاق دیتا ہوں کل آجانا اور سامان لے جانا‘‘

29 مارچ 2016ء کو ہم نے لاہور ہائی کورٹ عدالت میں کیس دائر کر دیا اور خرچے کیلئے اپریل یا مئی میں فیملی کورٹ سے رجوع کیا ۔

(3) میں تو اس موقع پر موجود نہیں تھی لیکن میرے بھائی نوید کا کہنا ہے کہ فیملی کورٹ میں جج نے آپ (بیوی) کو خرچے دینے سے متعلق شوہر سے بات کی تو شوہر نے کہا کہ میں اس کو طلاق دے چکا ہوں یا یہ کہا کہ طلاق  دی ہوئی ہے۔ ( تو اس کو خرچہ کس بات کا دوں ؟ یعنی میں اس کو خرچہ نہیں دوں گا ) اپنے 2 بچوں کو خرچ دوں گا ۔

بھائی نوید کا کہنا ہے کہ جج کے سامنےخرچہ اور طلاق کے اقرار سے متعلق شوہر کے بعینہ الفاظ تو یاد نہیں ہیں جو  بات یاد پڑتی ہے وہ بتلا دی ہے۔

اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ میں اب اپنا گھر بسانا چاہتی ہوں۔

شوہر کا بیان:

(1) میں سچ کہہ رہا ہوں کہ فون پر بات کرتے ہوئے میں نے طلاق کا  کوئی ذکر نہیں کیا اور یہ کافی عرصہ پہلے (غالبا 2016) کی بات ہے جو مجھے اب صحیح یاد نہیں ہے۔

(2) عدالت میں، میں نے طلاق کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا یہ سب جھوٹ ہے

(3) اور رہی میسج کی بات وہ ( لڑکی والے) اپنی مرضی سے کچھ بھی لکھ کر محفوظ (save) کر سکتے ہیں  یہ میسج ہم نے 1 سال پہلے بھی پڑھا تھا تب تو اس میں طلاق کا کوئی ذکر نہیں تھا اب طلاق کہاں سے آ گئی اس میں ؟ اس میسج کو پڑھنے والے کافی لوگ ابھی گواہ ہیں۔

شوہر کا دوبارہ وضاحتی بیان:

قاری صاحب میں آپ سے سچ کہہ رہا ہوں میں اگر جھوٹ بولوں گا تو میں خود اس کی سزا پاؤں گا۔ میں نے کوئی طلاق کا نہیں کہا، بس میری بیوی نے جب آنے سے انکار کیا تھا تو میں نے اس سے فون پر صرف یہی کہا تھا کہ آپ نے نہیں آنا تو پھر طلاق لے لو، میں نے اس سے یہ نہیں کہا کہ میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔  کال پر بس یہ بات ہوئی ہے۔ باقی جو یہ میسج اور عدالت کا کہتے ہیں وہ بالکل جھوٹ ہے مسئلہ صرف انا  کا ہے، طلاق والی کوئی بات نہیں۔

بس یہی سچ ہے، یہی یاد ہے اور اللہ کے حکم سے یہی حقیقت ہے۔ نہ میں نے کوئی طلاق دی ہے اور نہ ہی میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔ میں اپنی بیوی کو بسانا چاہتا ہوں۔ بس آگے ان کی مرضی۔ شکریہ۔

نوٹ : شوہر کے ان الفاظ :

’’یہ میسج ہم نے ایک سال پہلے بھی پڑھا تھا تب تو اس میں طلاق کا کوئی ذکر نہیں تھا‘‘  سے متعلق لڑکی کے بھائی نوید کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم نے جان بوجھ کر یہ طلاق والا میسج نہیں دکھایا تھا، ہمیں وکیل نے منع کر دیا تھا دوسرا میسج بغیر طلاق والا دکھایا تھا ۔

دونوں میسج یہ ہیں:

(1).27فروری، 2016 کا میسج: ’’یہ میرا فائنل فیصلہ ہے، اب ہم آگے ساتھ نہیں چل سکتے۔ تین دفعہ مسٹر کی انٹری۔ آپ لوگ پر امن طریقے سے جیسے آج آپ کے گھر بات ہوئی ہے میری بیٹی کو لے آنا اور اپنا سامان لے جانا، جمعہ کو آجانا‘‘ (اس میں طلاق کا ذکر نہیں اور یہی لڑکے والوں کو دکھایا تھا)

اس میسج میں ’’تین دفعہ مسٹر کی انٹری‘‘ سے مراد لڑکی کے چچا کی تین دفعہ دخل اندازی کرنا ہے۔

(2).3 مارچ، 2016 کا میسج: ’’آپ نے کہا تھا کہ نوٹس بھیج دینا فارغ کرنے کے۔ اب میں خود آپ کی بہن کو طلاق دیتا ہوں، کل آجانا اور سامان لے جانا‘‘ (یہ میسج لڑکے والوں کو نہیں دکھایا تھا)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں لڑکی کے بھائی نے جو عدالت میں شوہر کے طلاق دینے کا ذکر کیا ہے اگر لڑکی کو اپنے بھائی کی اس بات کے صحیح ہونے کا یقین ہے یا غالب گمان ہے تو لڑکی کے حق میں ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی تھی جس کے بعد عدت کے اندر رجوع ہوسکتا تھا لیکن چونکہ عدت بھی گزر چکی ہے لہذا بیوی کو شوہر کے ساتھ رہنے کیلئے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔

توجیہ:

طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے لہذا اگر اسے معتبر ذریعہ سے شوہر کے طلاق دینے کی خبر پہنچے تو اس کے لیے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں بھی لڑکی کے بھائی نے عدالت میں شوہر کے طلاق دینے کی خبر دی ہے لہذا اگر لڑکی کو اپنے بھائی کی بات کے سچا ہونے کا غالب گمان ہے تو وہ اپنے حق میں ایک طلاق سمجھے گی۔

فتاویٰ شامی (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه

مبسوط (133/6 کتاب الطلاق) میں ہے:

من أقر بطلاق سابق يكون ذلك إيقاعا منه في الحال

بیوی سے کال پر بات کرتے ہوئے بیوی کے بیان کے مطابق جو الفاظ شوہر نے استعمال کیے کہ ’’اگر تو نہیں آئے گی تو میں تجھے طلاق دے دوں گا‘‘ یہ جملہ مستقبل میں طلاق دینے کے بارے میں ہے اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

البحر الرائق (438/3) میں ہے:

وليس منه أطلقك بصيغة المضارع إلا إذا غلب استعماله في الحال كما في فتح القدير

اور شوہر کے بیان کے مطابق جو الفاظ اس نے استعمال کیے کہ ’’آپ نے نہیں آنا تو پھر طلاق لے لو‘‘ سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ سیاق وسباق کے مطابق شوہر طلاق واقع نہیں کررہا بلکہ بیوی کو پیشکش کررہا ہے کہ مجھ سے طلاق طلب کرلو۔

فتاویٰ عثمانی (353/2) میں ہے:

’’اردو محاورے میں مذکورہ جملے [طلاق لے لو] کے د ومطلب ہوسکتے ہیں ، ایک یہ کہ ’’جب تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تو پھر میں تمہیں طلا ق دیتا ہوں، طلاق لے لو ‘‘ اور دوسرا مطلب اردو محاورے میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’جب تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تو پھر مجھ سے طلاق لے لو‘‘ یعنی مجھ سے طلاق طلب کرلو، اردو محاورے کے لحاظ سے مذکورہ جملے میں دونوں معنی کا یکساں احتمال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوسرے معنی مراد ہوں تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی‘‘۔

اور میسج کے ذریعے طلاق دینا طلاق كی غیر مرسوم صورت ہے جس میں جب تک شوہر کی نیت نہ ہو طلاق واقع نہیں ہوتی۔ مذکورہ صورت میں شوہر سرے سے میسج بھیجنے کا ہی انکار کر رہا ہے اس لیے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

تبیین الحقائق (218/6) میں ہے:

ثم الكتاب على ثلاث مراتب…………… ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved