• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کے مطالبۂ طلاق پر شوہر کے ’’جاؤ، دی‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

بیوی کا بیان:

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے اور میرے شوہر کے درمیان بہت بار لڑائی ہوئی ہے اور پہلے میں نے کبھی بھی طلاق کا مطالبہ نہیں کیاتھا، کچھ عرصہ پہلے سے جب بھی ہماری لڑائی ہوتی تو مجھے بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کیوں آپے سے باہر ہوجاتی تھی اور اپنے شوہر کو کہہ دیتی کہ مجھے طلاق دیں تو شوہر جواب میں کہتے کہ دے دوں گا اور ایسا کئی مرتبہ ہوا۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے شوہر سے ایک لڑائی میں طلاق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے طلاق دیں میرے خیال میں یہ بات آتی ہے کہ انہوں نے مجھے کہا کہ ’’جاؤ، میں نے دی‘‘ اور ایک مرتبہ ’’دی‘‘ کا لفظ بولا تھا یا تین مرتبہ بولا تھا اس میں بھی شک ہے لیکن غالب گمان یہی ہے کہ ایک لڑائی میں شوہر نے ’’دی‘‘ کہا تھا اور ایک مرتبہ کہنے کا ہی غالب گمان ہےتین مرتبہ ’’دی‘‘ کہنے کا بھی کبھی خیال آتا ہے ليكن یقین نہیں۔میں نے اپنے ذہن پر بہت زور ڈالا، بہت سوچا لیکن یہی ذہن میں آیا جو لکھا ہے۔میں نے اپنے شوہر سے یہ بات کہی تو وہ کہتے ہیں کہ کبھی میں نے ’’دی‘‘ کا لفظ نہیں کہا۔ ہم اس کے بعد بھی میاں بیوی کی طرح اکٹھے ہی رہتے ہیں۔ میں بہت پریشان ہوں، براہِ کرم مجھے اس بات کا جواب ضرور دیجئے گا اور کوئی حل بتائیے گا کہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟

شوہر کا بیان:

ہماری لڑائی ہوتی تھی تو میری بیوی مجھے کہتی کہ مجھے طلاق دیں تو میں کہتا تھا کہ میں نے نہیں دینی تم خود لے سکتی ہو تو لے لو، کئی مرتبہ لڑائی میں ایسے ہوا۔ پھر میری بیوی کو ایک خواب آیا کہ میں نے اسے طلاق دے دی ہے جس کے بعد وہ کشمکش میں مبتلا ہوگئی ہے۔ میری بیوی نے مجھے یاد کروانے کی کوشش کی کہ میں نے ایک مرتبہ لڑائی کے دوران طلاق کے مطالبے کے بعد اسے یہ بھی کہا تھا کہ  ’’جاؤ، میں نے دی‘‘۔ میں نے ذہن پر بہت زور ڈالا تو مجھے یقینی طور پر تو یاد نہیں آیا، ہاں کچھ یاد آتا ہے کہ شاید میں نے ایک دفعہ ’’دی ‘‘ کہہ دیا ہوگا لیکن یہ لفظ کہنے یا نہ کہنے کے بارے میں شک ہے، کسی ایک طرف غالب گمان نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق دینے میں شک ہونا کافی نہیں بلکہ طلاق دینے کا یقین یا غالب گمان ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں جس واقعہ میں بیوی کو اس بات کا غالب گمان ہے کہ اس کے مطالبہ طلاق پر شوہر نے ’’جاؤ، میں نے دی‘‘ کہا تھا اس سے بیوی کے حق میں ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی تھی کیونکہ طلاق کے معاملے میں بیوی کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے اور وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ اس کے بعد میاں بیوی چونکہ اکٹھے ہی رہتے رہے ہیں اس لیے رجوع ہوگیا اور نکاح قائم ہے۔

نوٹ: بیوی کے حق میں چونکہ ایک طلاق ہوچکی ہے لہٰذا آئندہ شوہر کو دو طلاق کا حق باقی ہے یعنی اگر شوہر نے آئندہ کبھی دو طلاقیں دے دیں تو بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی جن کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجائے گی اور دوبارہ صلح یا رجوع کی گنجائش بھی نہ رہے گی۔

بدائع الصنائع (3/199) میں ہے:

ومنها عدم الشك من الزوج في الطلاق وهو شرط الحكم بوقوع الطلاق حتى لو شك فيه لا يحكم بوقوعه حتى لا يجب عليه أن يعتزل امرأته لأن النكاح كان ثابتا بيقين ووقع الشك في زواله بالطلاق فلا يحكم بزواله بالشك

رد المحتار (3/408) میں ہے:

وغلبة الظن حجة موجبة للعمل كما صرحوا به

رد المحتار (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه

عالمگیریہ (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved