• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کہتی ہے شوہر نے طلاق کے الفاظ تین بارکہے ،شوہر کہتا ہے  میں نے دوبار کہے ،تو کیا  حکم ہے ؟

استفتاء

میرا  نام  رضوانہ  ہے اور میری عمر 40  سال  ہے، میں ایک سکو ل میں   پڑھاتی ہوں،   میراسوال یہ ہے کہ آج سے چند سال پہلے میرے شوہر کا میرے  ساتھ  شدید جھگڑا  ہوا اور جھگڑ  ے میں  میرے  شوہر   نے مجھے   3  بار طلاق    دےدی،   میں  ان دنو ں   حاملہ  تھی ( بعد میں  میرا بچہ پیدا ئش  کے ایک دن بعد فوت ہوگیا تھا  ) 3  بار طلاق  دینے  کے بعد میرے شوہر  کو احساس ہوا کہ اس نے  غلط  کر دیا  اس نے اسی وقت   معافی مانگی  اور  کہا کہ عورت  حاملہ  ہو تو  طلاق  نہیں ہوتی ،میں نے بھی یہی سن رکھا تھا کہ اس حالت  میں طلاق  نہیں ہوتی   ہم دونو ں ہی   انجان تھے  تو ہم نے اسی وقت صلح  کر لی  بعد میں میرا ایک  اور بیٹا  تھا وہ بھی فو ت  ہوگیا  ابھی میرا ایک  بیٹا  ہے  جو  سب سے پہلے ہوا تھا ۔ سالوں بعد مجھ پر یہ بات کھلی   ہے  کہ اس حالت میں بھی طلاق ہوجاتی ہے،میں نے  کئی علماء سے  بھی پوچھا ہے کچھ نے  کہا کہ طلاق  اسی وقت  ہوگئی تھی ،اتنے سال تم نے آپس میں  حرام گزارے ہیں اور فوارً خدا سے معافی مانگیں اور علیحدہ ہوجائیں  ۔ایک دو علماء  نے کہا "طلاق نہیں ہوئی ” میں بہت پریشان ہوں ۔جناب میں ایک نمازی اور دین دار عورت  ہوں اور بہت زیادہ خوف خد ا میں ہوں اور میری راتوں کی نیند اڑگئی ہے، اگر میں نے حرام  کیا ہے تو خدا مجھے اپنے حبیب  کے صدقے  معاف فرمائے ،میری مدد کریں اور دین اور قرآن کے مطابق میری راہنمائی  فرمائیں۔

جناب ایک اور بات آپ کو بتادوں   "میرے شوہر  نے اب مجھے دیکھا ہے کہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ علماء کے پاس جاتی ہوں، میرا بیٹا 22سال کا ہے وہ مجھے کئی علماء کے پاس لے کر گیا ہے اب  میرا شوہر انکار کرتاہے اور کہتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی تھی لیکن  میرا خدا جانتا ہےکہ میرے شوہر  نے مجھے طلاق دی تھی  ۔میں اپنے آپ کو بہت گناہ گار سمجھ رہی ہوں بس مجھے میرے سوال کا جواب دے دیں تاکہ میں کوئی فیصلہ کرسکوں۔  شکریہ

وضاحت مطلوب ہے (1)۔طلاق کے الفاظ کیا تھے  ؟(2)۔اس وقت خاوند کی حالت کیا تھی ؟

(1)۔ طلاق کے الفاظ یہ تھے ” میں نے تمہیں طلاق دی ہے "یہ الفاظ تین بار دہرائے تھے  ۔ میرا شوہر جانتا ہے کہ اس نے مجھے یہ الفاط کہے تھے ،پھر اب سب کے سامنے کہتا ہے کہ میں نے نہیں کہا  ،اب وہ اپنے الفاظ سے مکررہا ہے  لیکن مفتی صاحب! مرنے سے پہلے  میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ  كيامیں طلاق یافتہ ہوچکی ہوں؟ اور کیا اتنے سال اس کے ساتھ رہ کر گناہ کبیرہ کررہی  تھی؟ ۔بس مجھے  میرے دین کے      مطابق جواب مل جائے میں گناہگار ہوکر مرنا نہیں چااہتی  ،اللہ سے توبہ کرکے مرنا چاہتی ہوں ۔

(2)۔جناب میرا شوہر کبھی کبھار شراب بھی پی لیتا تھا  شائداوربھی نشہ کرتا ہو  مجھے پتا نہیں  ہاں !لیکن افیون ابھی تک کھاتا ہے اور بہت زیادہ مقدار میں کھا تا ہے  ۔یہ ہمیشہ غلط سوسائٹی  میں اٹھتا بیٹھتا  تھا  ،گھر  کا  خرچہ بھی نہیں کرتا تھا۔اب میں خود نوکری کرتی ہوں اور کرائےبل دیتی ہوں ،شادی  کے بعد  میں 12 سالوں  سے نوکری کررہی ہوں اور لگتا ہے کہ مرتے دم تک   نوکری کرنی پڑے گی   ،میرا بیٹا بھی مجھے ایک پیسہ نہیں دیتا ۔ طلاق دیتے وقت یہ  نشہ میں تھا یا نہیں   میں نہیں جانتی ،       ہوسکتا ہے اس  نے کچھ نشہ کیا ہو مگر مجھے نہیں پتا ۔

شوہرکا بیان:   شوہر سے بات ہوئی تو  اس  کا  کہنا  تھاکہ "میں غصے میں تھا  لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کررہا ہوں  مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے دو مرتبہ کہا تھاكہ”  میں نے تجھے طلاق دی ،طلاق دی "اس وقت میں نے کوئی نشہ نہیں کیا ہوا تھا ۔(رابطہ کنندہ :محمد سلیمان)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر کے بیان کے مطابق دو رجعی طلاقیں واقع ہوئی ہیں جن کے بعد عدت (جو کہ مذکورہ صورت بچہ پیدا ہونے تک تھی) گذرنے سے پہلے رجوع جائز  ہے لیکن بیوی کے بیان کے مطابق  بیوی کے حق میں  تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں  جن کی وجہ   سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے اور بیوی چونکہ اپنی ذات کی حد تک اپنے بیان پر عمل کی پابند ہے لہذا  بیوی کے لیے اب نہ صلح یا رجوع  کرنے کی گنجائش نہیں۔

توجیہ : طلاق کےمعاملے  میں عورت کی حیثیت قاضی  کی طرح ہوتی ہے لہذا    اگر  وہ شوہر کا طلاق دینا خود سن لے یا اسے کسی معتبر ذریعہ  سے معلوم ہوجائے تو اس  کے لیے اس کے مطابق   عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق چونکہ  شوہر نے    طلاق کا جملہ  کہ ” میں نے   تمہیں طلاق دی  ” تین بار بولا تھا   لہذابیوی اپنے حق میں  تین طلاقیں شمار کرنے کی پابند  ہے ۔

فتاوی شامی(4/439) میں ہے:

"قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه.”

فتاوی شامی (4/449) میں ہے :

"والمرأة كالقاضي  اذا سمعته أو اخبرها عدل لا يحل لها تمكينه”

در مختار (4/509) میں:

"فروع کرر لفظ الطلاق وقع الکل وإن نوى التأكيد دين "

فتاوی عالمگیری (2/411) میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved