• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کی بہن کے گھر آنے پر طلاق کو معلق کیا تو کرائے کے گھر سے مسئلے پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ

’’اگر آج کے بعد آپ اپنی بہن کے گھر گئیں یا آپ کی بہن یا آپ کی دونوں بھانجیاں میرے گھر آئیں تو آپ کو میری طرف سے ایک طلاق ہے، اب آپ کے پاس صرف دو لائف لائنز رہ گئی ہیں، یہ میں با ہوش و حواس کہہ رہا ہوں کان کھول کر سن لیں‘‘

ہم لوگ کرائے کے گھر میں رہتے ہیں، اور میری سالی صاحبہ بھی گروی کے گھر میں رہتی ہیں، کیا مذکورہ صورت میں میری اہلیہ کے ان کے گھر جانے سے یا ان کے ہمارے گھر آنے سے طلاق واقع ہو جائے گی؟ ابھی تک نہ ان میں سے کوئی ہمارے گھر آیا ہے اور نہ میری اہلیہ ان کے گھر گئی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  اگر مذکورہ شرط پائی گئی یعنی آپ کی بیوی اپنی بہن کے گھر گئی یا آپ کی بیوی کی بہن یا ان کی دونوں بیٹیاں آپ کے گھر آئیں تو آپ کی بیوی پر ایک رجعی طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ قسم کا مدار عرف پر ہوتا ہے اور عرف میں گھر سے رہائشی مکان مراد لیا جاتا ہے، خواہ وہ رہائشی مکان ذاتی ہو، کرائے کا ہو یا گروی کا ہو۔ رجعی طلاق کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے، اور اگر شوہر  عدت کے اندر رجوع نہ کرے تو نیا مہر مقرر کر کے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوتا ہے۔

نوٹ: رجوع یا دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں آئندہ کےلیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی ہو گا۔

عالمگیری (1/420) میں  ہے:

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.

درمختار مع ردالمحتار (577/5) میں ہے:

(حلف لا يدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه) عرفا ولو تبعا أو بإعارة باعتبار عموم المجاز

(قوله أو بإعارة) أي لا فرق بين كون السكنى بالملك أو بالإجارة أو العارية إلا إذا استعارها ليتخذ فيها وليمة فيدخلها الحالف فإنه لا يحنث كما في العمدة والوجه فيه ظاهر. نهر: أي لأنها ليست مسكنا له (قوله باعتبار عموم المجاز إلخ) مرتبط بقوله يراد يعني أن الأصل في دار زيد أن يراد بها نسبة الملك، وقد أريد بها ما يشمل العارية ونحوها وفيه جمع بين الحقيقة والمجاز وهو لا يجوز عندنا. فأجاب بأنه من عموم المجاز بأن يراد به معنى عام يكون المعنى الحقيقي فردا من أفراده وهو نسبة السكنى: أي ما يسكنها زيد بملك أو عارية.

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (283/3) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved