• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’اگر تو ان عورتوں کے سامنے گئی تو میری طرف سے تجھے تین طلاق‘‘  کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے گھر چند رشتہ دار عورتیں اس کی والدہ سے ملنے کے لیے آئیں، اس شخص کی ان عورتوں سے لڑائی ہوئی تھی اس لیے اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’اگر تو ان عورتوں کے سامنے گئی تو میری طرف سے تجھے تین طلاق‘‘ اس شخص کی والدہ نے اس کی بیوی سے کہا کہ مہمانوں کے پاس کھانے پینے کا سامان لے جاؤ، میرے بیٹے کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا، تو وہ ساس کے ہاتھوں مجبور ہو کر چائے اور کھانے پینے کا سامان لے کران عورتوں کے سامنے چلی گئی، ان عورتوں سے سلام دعا کی، بات چیت کی ، ان کے ساتھ چائے پی، اور  کافی دیر تک ان کے پاس بیٹھی رہی، اس بات  پر شوہر کو غصہ آ گیا اور اس کے بعد وہ ماں سے الگ دوسرے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ رہنے لگ گیا، پھر کچھ عرصے کے بعد اس نے بیوی سے غصے میں کہا کہ تم میری طرف سے فارغ ہو، میں تمہیں فارغ کرتا ہوں، اب اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤ، اس کے بعد وہ گھر سے چلا گیا، یہ میری بہن کا مسئلہ ہے، میرا بہنوئی دو سال سے غائب ہے، اس کا کوئی رابطہ نمبر نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتا  شوہر نے اپنی بیوی سے یہ کہا تھا کہ  ’’اگر تو ان عورتوں کے سامنے گئی تو میری طرف سے تجھے تین طلاق‘‘ اور اس کے بعد اس کی بیوی ان عورتوں کے سامنے چلی گئی تھی تو اسی وقت تین طلاقیں واقع ہو گئی تھیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی تھی، اور رجوع اور صلح کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی تھی، لہذا اس کے بعد میاں بیوی کا اکٹھے رہنا جائز نہیں تھا، اس لیے میاں بیوی اس پر توبہ استغفار کریں۔

عالمگیری (1/420) میں ہے:وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved