• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو غصہ میں کہا ’’تیرا میرا کوئی لین دین نہیں‘‘ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

استفتاء

ایک شخص کی اپنی بیوی سے گھریلو لڑائی ہورہی تھی (یعنی نہ بیوی کی طرف سے طلاق کا مطالبہ تھا اور نہ شوہر کی طلاق کی نیت تھی) اس نے غصہ میں اپنی بیوی سے کہا: ’’تیرا میرا کوئی لین دین نہیں، میرے لئے کوئی کھانا پینا نہیں بنانا، میں اپنا خود کرلوں گا‘‘ تو اس قول کا کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شوہر اپنی بیوی کے سامنے طلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم دیدے تو مذکورہ الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگر قسم نہ دے تو بیوی اپنے حق میں ایک بائنہ طلاق سمجھے گی۔ بائنہ طلاق میں سابقہ نکاح ختم ہوجاتا ہے تاہم دوبارہ سے نکاح کرکے صلح ہوسکتی ہے۔

توجیہ: سوال میں مذکور الفاظ ’’تیرا میرا کوئی لین دین نہیں‘‘ کنایات طلاق کی دوسری قسم کے الفاظ ہیں جن کا حکم یہ ہے کہ اگر ان الفاظ کے بولنے سے پہلے طلاق کا ذکر چل رہا تھا یا طلاق کا ذکر تو نہیں تھا لیکن شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ الفاظ بول دیئے تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔

فتاویٰ ہندیہ (376/1) میں ہے:

وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع كذا في العتابية.

فتاویٰ قاضی خان علی ہامش الہندیہ (468/1) میں ہے:

ولو قال لم يبق بيني وبينك عمل يقع الطلاق إذا نوى.

فتح القدیر (فصل فی الطلاق قبل الدخول) میں ہے:

ومن الكنايات تنحي عني واختلف في لم يبق بيني وبينك عمل قيل يقع إذا نوى وقيل لا

الدر المختار مع رد المحتار (521/4) میں ہے:

(تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.

وفي الشامية تحته: (قوله بيمينه) فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقا لله تعالى ط عن البحر

نیز (526/4) میں ہے:

المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. فتح

امداد المفتین (ص527)  اور فتاویٰ رحیمیہ (302/8) میں ہے:

’’زید کا قول ہم سے تم سے کوئی تعلق نہیں یہ کنایہ طلاق ہے۔ صرح العالمگیریہ والخلاصۃ حیث قال لم یبق بینی وبینک عمل أو شيئ وأمثال ذلك اور یہ کنایہ قسم ثانی میں داخل ہے جس کا حکم یہ ہے کہ نیت پر موقوف ہے اگر زید نے ان لفظوں سے طلاق کی نیت کی ہے جیسے کہ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی اور اگر نیت نہیں کی تو طلاق واقع نہیں ہوئی زید سے حلف لے کر دریافت کیا جاسکتا ہے‘‘

امداد الفتاویٰ جدید (285/5) میں ہے:

’’سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی سے یہ لفظ کہے کہ ’’نہ میں تیرا میاں اور نہ تو میری بیوی میرے سے کچھ تعلق نہیں ہے‘‘ کیا طلاق پڑگئی یہ لفظ طلاق دینے کی نیت سے نہیں کہے گئے بلکہ اُس کو ڈرا نے کی نیت سے کہے؟

الجواب: اگر ان الفاظ کے کہنے سے پہلے کچھ ذکر طلاق کا ہو رہا تھا اور اس کے بعد یہ الفاظ کہے تب تو بدون نیت کے بھی طلاق واقع ہوگئی اور اگر کچھ ذکر نہ تھا تو بدون نیت کے طلاق نہیں واقع ہوئی کیونکہ یہ کلمات محتمل ہیں سبّ اور جواب کے اور اس قسم میں یہی حکم ہے کذا فی الدرالمختار ورد المحتار۔(۱)

(۱)  حاشیہ:’’نہ میں تیرا میاں‘‘ حسب تصریح شامیہ طلاق رجعی ہے لہٰذا ’’میرے سے کچھ تعلق نہیں‘‘ کے جملہ سے دوسری طلاق بائنہ بھی واقع ہو جائے گی ۔ واﷲ اعلم ۱۲ ؍ رشیداحمد عفی عنہ‘‘

[مفتی رشید احمد صاحب کے حاشیہ کی عبارت سے معلوم ہوا کہ ’’میرے سے کچھ تعلق نہیں‘‘ سے ذکرِ طلاق کے وقت بغیر نیت کے طلاق واقع ہوگئی]

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved