• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو نہ بسانا اور نہ طلاق دینا بلکہ معلقہ بنا کر رکھنا شرعا کیسا ہے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری ایک بیٹی جس کی شادی 13 سال پہلے ہوئی تھی، بچے کی ولادت کے وقت اس کی طبیعت خراب ہوگئی جس کی وجہ سے اسے فالج ہوا اور دماغی توازن صحیح نہیں رہا،  4 سال تک میں نے بیٹی کا علاج کروایا، جس پر 4 لاکھ خرچ ہوا، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس کا خاوند اس کو حقوق دے گا تو اس کا دماغی توازن درست ہو جائے گا، آج سے نو سال پہلے اس کے خاوند نے اس کو میری طرف روانہ کر دیا اور خود دوسری شادی کر لی، اس کا شوہر نہ تو اس کو اپنے پاس رکھتا ہے اور نہ ہی طلاق دیتا ہے، نو سال سے اس کو خرچہ بھی نہیں دے رہا اور حقوق بھی نہیں دے رہا، اب لڑکی کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یا تو وہ لڑکی کو بسائے یا طلاق دیدے،  تاکہ ہم کہیں اور بچی کا نکاح کر دیں، اور اگر بساتا بھی نہیں اور طلاق بھی نہیں دیتا ہے تو کم از کم لڑکی کا حق مہر (3 تولے سونے کے زیورات مہر مقرر ہوا تھا، یہ بات زبانی طور پر طے ہوئی تھی، نکاح نامے میں نہیں لکھی گئی، زیور شادی کے موقع پر لڑکی کو دیا گیا تھا، پھر جب بیمار ہوئی تو شوہر نے زبردستی واپس لے لیا) جہیز کا سامان اور ہماری طرف سے دیا ہوا 9 ماشے زیور واپس کر دے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر آپ کو طلاق چاہیے تو حق مہر بھی معاف کریں، جو کچھ جہیز میں دیا وہ بھی معاف کریں، اور اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپے دیں، پھر میں طلاق دوں گا۔ ہم عدالت عدالتی خلع نہیں لینا چاہتے  صرف یہی پوچھنا چاہتے ہیں کہ

(1) کیا ہمارے داماد کا ہماری بیٹی کو نہ حقوق دینا نہ طلاق دینا بلکہ معلقہ بنا کر رکھنا شرعا جائز ہے؟

(2) کیا ہمارے داماد کا طلاق کا معاوضہ مانگنا اور حق مہر، جہیز کا سامان معاف کروانا شرعا جائز ہے؟

(3) ہمارا جہیز اور زیور کی واپسی کا مطالبہ کرنا شرعا کیسا ہے؟

(4) مہر کا زیور جو ہمارے داماد نے واپس لے لیا تھا ہماری بیٹی وہ زیور واپس لے سکتی ہے؟

(5) بیٹی کے علاج پر جو 4 لاکھ خرچ ہوا، وہ میرے داماد کے ذمے ہے یا نہیں؟

حافظ رحمت اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) بیوی کو معلقہ بنا کر رکھنا یعنی نہ اس کے حقوق ادا کرنا اور نہ طلاق دینا شرعا جائز نہیں، اگر شوہر حقوق نہیں ادا کر سکتا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کو طلاق دیدے۔

درمختار (4/417) میں ہے:

ويجب لو فات الإمساك بالمعروف.

(2) مذکورہ صورت میں چونکہ قصور شوہر کا ہے لہذا شوہر کے لیے طلاق کا معاوضہ مانگنا جائز نہیں۔

درمختار مع ردالمحتار (5/95) میں ہے:

(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز.

(قوله: وكره تحريما أخذ الشيء) أي قليلا كان، أو كثيرا. والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا – {فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء: ٢٠]- إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث، وتمامه في الفتح، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي: أخرج ابن أبي جرير عن ابن زيد في الآية قال: ثم رخص بعد، فقال – {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: ٢٢٩]- قال فنسخت هذه تلك اهـ وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت اهـ أي سواء كان النشوز منه أو منها، أو منهما. لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط، والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما، وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابتة بالإجماع، وبقوله تعالى – {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة: ٢٣١]- وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ مالها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم.

(3) لڑکی کو اپنے والدین کی طرف سے ملنے والا زیور اور جہیز کا سامان لڑکی کی ملکیت  ہے، اس لیے شوہر کے لیے جہیز کا سامان واپس کرنا ضروری ہے۔

درمختار (4/304) میں ہے:

(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعده إن سلمها ذلك في صحته) بل تختص به (وبه يفتى) وكذا لو اشتراه لها في صغرها والوالجية.

فتاوی دارالعلوم دیوبند (8/258) میں ہے:

سوال: محمد خلیل نے اپنی زوجہ رحمت کو طلاق بائن دے دی‘ بوقت عقد زوجہ کے والد نے اپنی لڑکی رحمت کو جہیز میں برتن وغیرہ دیئے تھے وہ کس کی ملک ہیں ؟

(الجواب) وہ اشیاء و سامان جہیز کا رحمت کی ملک ہے محمد خلیل کا اس میں کچھ حق نہیں ہے (۱)( پس معلوم ہوا کہ جہیز لڑکی کا حق ہوتا ہے لڑکے کا نہیں ‘ ظفیر )

(4) مذکورہ صورت میں اگر واقعتا  شادی کے وقت تین تولہ سونا مہر مقرر ہوا تھا تو وہ بیوی کا حق ہے جس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ واجب ہے۔

فتاوی عالمگیری (303/1) میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين سواء كان

مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء  من صاحب الحق كذا في البدائع”

(5) بیوی کے علاج کا خرچ شوہر پر واجب نہیں ہے، اگر وہ دیدے تو اس کا احسان ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (5/288) میں ہے:

كما لا يلزمه مداواتها.

(قوله كما لا يلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة هندية عن السراج.

فتاوی دارالعلوم دیوبند (11/84) میں ہے:

سوال: میری زوجہ مریضہ کا علاج اس کے اقارب نے اپنی مرضی سے کروایا، اب وہ لوگ جو کہ انہوں نے علاج میں رقم صرف کی ہے مجھ سے طلب کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تو کیا وہ رقم جو انہوں نے صرف کی ہے مجھ پر واجب الادا ہے؟۔۔۔۔۔الخ

الجواب: شوہر کے ذمہ زوجہ مریضہ کی دوا کرنا واجب نہیں ہے، بلکہ تبرع محض ہے، پس صورت مسئولہ میں جن لوگوں نے اس کی بیماری میں دوا وغیرہ کے سلسلہ میں جو کچھ خرچ کیا ہے اس کا ادا کرنا شوہر کے ذمہ ضروری نہیں کیونکہ اس کا وجوب خود اس کے اوپر بھی نہیں تھا چہ جائیکہ دوسروں کے کرنے سے اس پر وجوب ہو جائے۔ ولا يجب الدواء لمرض  ولا أجرة الطبيب ولا الفصد…..الخ (عالمگیریہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved