• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو ’’ تا پہ ما طلاقہ شوے‘‘ ( تم مجھ پر مطلقہ ہو گئی ہو) کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   ایک آدمی نے اپنی بیوی کو دو مرتبہ یہ الفاظ کہے کہ ’’ تا پہ ما طلاقہ شوے‘‘ ( تم مجھ پر مطلقہ ہو گئی ہو) ان الفاظ سے کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ :کیا بیوی کو اس بیان سے اتفاق ہے؟

جواب وضاحت: میاں بیوی کا ان الفاظ پر اتفاق ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   ایک رجعی  طلاقیں واقع ہو گئی ہے،  لہذا  اگر شوہر رجوع کرنا چاہے تو عدت گزرنے سے پہلے رجوع  کر سکتا ہے،اگر  عدت کے اندر رجوع نہ کیا گیا تو اکٹھے رہنے کے لیے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہو گا۔

نوٹ: آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہو گا۔

توجیہ:  مذکورہ صورت میں جب شوہر نے پہلی مرتبہ بیوی سے یہ کہا کہ ’’ تا پہ ما طلاقہ شوے‘‘ ( تم مجھ پر مطلقہ ہو گئی ہو)   تو ان الفاظ سے ایک رجعی طلاق واقع ہو گئی، کیونکہ یہ خبر کے الفاظ ہیں انشاء کے نہیں، اور جھوٹی خبر سے بھی قضاء طلاق واقع ہو جاتی ہے،  پھر دوبارہ جب شوہر نے یہی الفاظ کہے تو پہلی طلاق کی خبر ہونے کی وجہ سے ان الفاظ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بدائع الصنائع (3/283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

امداد الاحکام (2/418)میں ہے:

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ کو بعض اوقات خانگی کشیدگی اور جھگڑوں میں بطور تنبیہ اور اظہار نفرت و بیزاری کے طلاقن، مطلقہ، طلاق پانے کے قابل و غیرہم کلمات کہہ دیے، اگرچہ زید نے ایسے کلمات ناراضگی  میں منہ سے نکالے لیکن ہندہ کو کبھی اس قسم کا خیال بھی نہیں گزرا، وہ محض معمولی جھگڑوں پر محمول کرتی رہی، ۔۔۔۔۔۔۔ اب مستفسر یہ ہے کہ شرعا ایسی لغویات کی کیا اصل ہے؟ اور اب رجوع و انابت کے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب: قال فى الدر و لو قال لها كونى طالقا…… او يا مطلقة وقع اي من غير نية لانه صريح  . شامى، وفيه ايضا عن التاترخانية عن المحيط قال: انت  طالق ثم قال يا مطلقة لا تقع اخرى اه.

صورت مسؤلہ میں یہ لفظ تو موجب طلاق نہیں کہ ’’طلاق پانے کے قابل‘‘ البتہ ’’طلاقن‘‘ اور ’’مطلقہ‘‘ کہہ کر پکارنے سے زوجہ پر ایک طلاق واقع ہو چکی ہے، اگر اس واقعہ کو زیادہ عرصہ نہں گزرا اور عدت پوری نہیں ہوئی تو زبان سے بیوی کو اتنا کہہ دیا جائے کہ میں نے رجعت کر لی، اور عدت پوری ہو چکی ہے تو نکاح دوبارہ کر سکتا ہے، بشرطیکہ عورت بھی تجدید نکاح پر راضی ہو، ورنہ وہ جس سے چاہے نکاح کر سکتی ہے، اور آئندہ ایسی لغویات سے احتراز کرنا لازم ہے۔

قلت و لايقع الثانية و لا الثالثة  بقوله يا مطقلة لانها اتصفت بها بالاول فيكون حكاية له، والله اعلم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved