• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو طلا ق کا تحریری میسج بھیجنے کا حکم

استفتاء

جناب میرا نام *** ہے میں آپ سے ایک مسئلے کے بارے میں راہنمائی  چاہتا ہوں۔میں نے اپنی بیٹی *** کا نکاح   اپنی بیٹی کی پسند اور اس کی  رضامندی سے کیا تھا لیکن لڑکے کے  گھر والوں نے بے شمار جھوٹ بولے،مثلا یہ  کہ لڑکے کی پہلی والدہ بھی زندہ تھی اور اس نے  غیر مناسب طریقے سے لڑکے کے دوست سے شادی کرلی تھی  جبکہ لڑکے اور اس کے گھر والوں نےکہا  تھا کہ ان کا  انتقال ہوگیا ہے اور والد نے دوسری شادی کرلی ہے۔میری بیٹی کے  نکاح کو دو سال گزرچکے تھے لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی  اور نہ ہی میاں بیوی کے درمیان ایسی تنہائی ہوئی تھی جس میں وہ ہمبستری کرنا چاہتے تو کرسکتے اسی عرصے  میں لڑکے کا رویہ لڑکی کے ساتھ نا قابل برداشت ہوگیا، روزانہ طعنے اور خاندان والوں کی بے عزتی کیا کرتا تھاجبکہ ہم اپنی بیٹی اور داماد کو صبر کی تلقین کرتے رہے چونکہ لڑکا باہر ملک میں نوکری کرتا تھا اس لیے وہ چاہتا تھا کہ رخصتی سے پہلے اس کو تمام اختیارات مل جائیں  جو ایک ناممکن سی بات ہے ۔

پوچھنا یہ ہے کہ دو دن  پہلےغصے میں لڑکے نے موبائل پر طلاق دے دی اور مکر گیا ،میسج لکھ کر ڈلیٹ کردیے اور اب ماننے کو تیا رنہیں ،تین بار لکھ کر طلاق دی   اور چوتھی بار لکھ کر بھیجا "میں *** ولد *** کو طلاق دیتا ہوں”مہربانی فرماکر اسلام کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟اور اب مزید اسلام کیا ہدایات دیتا ہے؟

بیوی کا بیان:

شوہر نے مجھے واٹس ایپ سے  تین میسج لفظ "طلاق” کے الگ الگ کیے تھے ،میں نے خود دیکھے تھے لیکن اس نے چند سیکنڈ بعد ہی ڈلیٹ کردیے پھر چوتھی دفعہ یہ میسج کیا:

Ma Tumha Talaq Deta Hun

"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں *** ***”

اس میسج کا سکرین شارٹ ساتھ لف ہے۔

شوہر کا بیان:

دار الافتاء کے نمبر سے شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے مندرجہ ذیل بیان دیا:

میری بیوی مجھ سے بار بار طلاق کا مطالبہ کرتی تھی جبکہ میں اس کو رکھنا چاہتا ہوں تو ایک دفعہ جب معاملہ حد سے بڑھا تو میں نے  صرف ایک دفعہ طلاق کا میسج کیا تھا، تین دفعہ طلاق کا ورڈ (لفظ) استعمال نہیں کیا، مجھے پتہ تھا کہ تین دفعہ طلاق بولوں گا تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں اور  ویسے بھی  صرف میسج ہی تو کیا تھا جس سے طلاق ہوتی بھی نہیں، میں نے اپنا گھر  بچانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور کر رہا ہوں ، میں اپنا گھر بالکل برباد نہیں کرنا چاہتا ۔ میں اپنے اس بیان پر حلف دینے کے لیے بھی  تیار ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کم از کم بیوی  کے حق میں  ایک  بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہےجس کی وجہ سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے  لہذا اگر میاں  بیوی اکھٹے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتےہیں اور دوبارہ نکاح کرنے کے بعد  شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

توجیہ:ہماری تحقیق میں میسج کی تحریر کتابت مستبینہ غیرمرسومہ ہے اور کتابت مستبینہ غیرمرسومہ سے شوہر کی طلاق کی نیت نہ  ہو  تو طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن  اگر شوہر نے غصہ یا مذاکرہ طلاق کی حالت میں طلاق لکھی ہو تو بیوی کے حق میں بغیر نیت کے بھی  طلاق واقع ہوتی ہے، مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے طلاق کا  میسج ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں *** ***‘‘ بیوی کے طلاق کے مطالبے پر  اور غصے کی حالت میں بھیجا تھا  لہٰذا اس سے بیوی کے حق میں  ایک طلاق واقع ہوگئی، اور چونکہ یہ طلاق  رخصتی  اور خلوت صحیحہ پہلے دی ہے اور رخصتی سے پہلے دی گئی طلاق، بائنہ شمارہوتی ہے اس لیے یہ ایک طلاق، بائنہ شمار ہوگی اور اگر بیوی کی بات کو بھی سامنے رکھیں تو چونکہ یہ متفرق بھی ہے اور رخصتی سے پہلے بھی ہے اس لیے اگر  شوہر نے طلاق کے  تین میسج کیے بھی ہوں تو پھر بھی ان سے ایک طلاق ہی واقع ہوگی  اور عدت نہ ہونے کی وجہ سے باقی طلاقیں لغو شمار ہوں گی  لہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

فتاویٰ النوازل لابی اللیث السمرقندی(ص215) میں ہے:

ثم الكتاب إذا كان مستبيناً غير مرسوم كالكتابة على الجدار وأوراق الأشجار وهو ليس بحجة من قدر على التكلم فلا يقع إلا بالنية والدلالة.

البحر الرائق (8/544) میں ہے:

ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا؛ لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالبينة والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه؛ لأن الكتابة قد تكون للتجربة وقد تكون للتحقيق وبهذه الإشارة تتبين الجهة

درمختار مع ردالمحتار (499/4) میں ہے:

(وإن فرق) بوصف أو خبر أو جمل بعطف أو غيره (بانت بالأولى) لا إلى عدة (و) لذا (لم تقع الثانية)

(قوله وإن فرق بوصف) نحو أنت طالق واحدة وواحدة وواحدة، أو خبر نحو: أنت طالق طالق طالق، أو جمل نحو: أنت طالق أنت طالق أنت طالق ح، ومثله في شرح الملتقى.

درمختار (5/42) میں ہے:

(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)

فقہ اسلامی (مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب، ص:117)میں ہے:

اگر کسی کاغذ پر یا دیوار پر یا زمین پر قلم سے یا انگلی سے صرف اتنا لکھ دیا کہ میری بیوی کو طلاق یا لکھ دیا کہ زینب (نام کی بیوی) کو طلاق تو اگر اعتدال کی (یعنی نارمل) حالت ہو اور طلاق دینے کی نیت سے لکھا ہو تو طلاق ہو گئی۔ اور اگر طلاق کا کر کے لکھا لیکن نیت طلاق دینے کی نہیں بلکہ محض ڈرانے کی یا مذاق کرنے کی نیت تھی تب بھی طلاق ہو گئی۔ اور اعتدال کی حالت میں محض لکھائی کی مشق یا قلم کے تجربہ کی نیت سے لکھا تو طلاق نہیں ہو گی۔ اور اگر بیوی سے لڑائی جھگڑے کی حالت میں لکھا یا بیوی کے مطالبہ طلاق پر لکھا تو اس قرینہ کی وجہ سے بھی طلاق ہو جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved