• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کو طلاق کی نیت کے بغیر ’’تم آزاد ہو‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب آپ سے ایک سوال (نمبر:2/8094) پوچھا تھا، جس کا جواب آپ کی طرف سے موصول ہوا تھا جس کا فتویٰ نمبر 25/188 ہے۔  سوال و جواب ساتھ لف ہے۔ اس سوال میں صرف بیوی کا بیان تھا اس لیے بیوی کے بیان پر جواب دے دیا گیا تھا اور جواب میں یہ نوٹ بھی لکھا تھا کہ ’’اگر شوہر کا بیان بیوی کے بیان سے مختلف ہوا تو مذکورہ جواب کالعدم ہوگا‘‘

مفتی صاحب! اب شوہر کا بیان بھی آپ کو ارسال کیا جارہا ہے جو درج ذیل ہے، کیا اس بیان سے جواب پر فرق پڑے گا؟

شوہر کا بیان:

’’پسِ منظر عرض ہے کہ بیوی تقریبا پانچ سال پہلے ناراض ہوکر میکے چلی گئی، پھر صلح ہوئی مگر وہ گھر نہیں آئی۔ شوہر نے مشترکہ مکان  بیچا اور نیا مکان شروع کرایا اور کچھ عرصہ صلح صفائی سے اپنے سسرال بچوں کی خاطر بیوی کے ساتھ رہنے چلا گیا کہ مکان مکمل ہوجانے کی صورت میں میاں، بیوی، بچے اکٹھے نئے مکان میں رہنے چلے جائیں گے۔ اس دوران جھگڑوں میں بیوی نے دو تین دفعہ شوہر پر ہاتھ بھی اٹھایا  اور وقتاً فوقتاً طیش دلانے کی خاطر مختلف باتیں بھی کرتی کہ تم نامرد ہو وغیرہ وغیرہ۔ اس پسِ منظر میں کئی مواقع میں نافرمانی اور مختلف معاملات پر شوہر یہ کہتا رہتا تھا کہ ’’تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو، جو مرضی کرتی پھرو‘‘  مگر اس میں طلاق کی کوئی نیت نہ تھی۔

ایک موقع پر بیوی نے ایک دن شوہر کو کہا کہ آپ بستر علیحدہ کرو کہ کیا پتہ ہمارا رشتہ ہے یا نہیں؟ ہم محرم ہیں یا نہیں؟ اس پر شوہر نے بستر علیحدہ کردیا اور کچھ دن بعد گاڑی میں بچوں کو لے کر جارہے تھے تو بیوی آگے(کی سیٹ پر)  شوہر کے ساتھ بیٹھنے لگی تو شوہر نے طنزیہ کہا کہ تم تو کہتی ہو کہ ہم نامحرم ہیں تو تم پیچھے بیٹھو، تم کیوں میرے ساتھ بیٹھی ہو؟ مگر اس وقت وہ ساتھ بیٹھی رہی اور ایک دو دن بعد اس نے پیچھے بیٹھنا شروع کر دیا۔  اب یہ موقف اپناتی ہے کہ ہماری طلاق واقع ہو گئی ہے۔  براہِ مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ شریعت کی نظر میں طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ نیز ساری صورتحال میں شوہر کا طلاق دینے کا کبھی کوئی ارادہ نہ تھا۔ ‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کے باوجود یہی حکم ہے کہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ بغیر تجدید نکاح کے رہنا جائز نہیں۔

توجیہ: سابقہ سوال میں بیوی نے شوہر کا جو جملہ ذکر کیا تھا کہ ’’تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘ اس سیاق و سباق میں فیصلوں سے آزاد ہونے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ نیز جو آڈیو ریکارڈنگ بھیجی گئی تھی اس میں بھی شوہر سے جب بیوی نے اس جملے کے بارے میں پوچھا تھا تو شوہر نے یہی جواب دیا تھا کہ ’’ہاں، وہ تو میں اب بھی کہتا ہوں‘‘ اس جواب میں بھی شوہر نے فیصلوں میں آزاد ہونے کا نہیں کہا تھا، اور یہ جملہ کہ ’’تم میری طرف سے آزاد ہو‘‘ کنایاتِ طلاق کی تیسری قسم میں سے ہے جس سے لڑائی جھگڑے کی حالت میں کہنے کی وجہ سے بیوی کے حق میں بائنہ طلاق واقع ہوجاتی ہے اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت نہ کی ہو۔

امداد الاحكام (2/561) میں ہے:’’اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ ’وہ میری طرف سے آزاد ہے‘ اس کنایہ کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب ومذکرہ میں بدون نیت بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے‘‘در مختار مع رد المحتار (4/521) میں ہے:”والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط ويقع في حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.“بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:”فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved