• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی سے کہا ’’اگر آئندہ تو نے اپنی بہن سے فون پر بات کی تو تجھے طلاق‘‘ بیوی نے بہن کو میسج کردیا تو کیا طلاق ہوگئی؟

استفتاء

حضرات علماء کرام! شوہر نے اپنی بیوی سے غصہ کی حالت میں کہا کہ ’’اگر آئندہ تو نے اپنی بہن سے فون پر بات کی تو تجھے طلاق‘‘ اس کے بعد بیوی نے اگلے دن اپنی بہن کو اس معاملے کے بارے میں بتا نے کے لیے میسج کردیا کہ میں آئندہ بات نہیں کروں گی۔ اب اس کا کیا حکم ہے؟ کیا بات کرنے سے کال پر بات کرنا ہی مراد ہوگا یا میسج وغیرہ کرنا بھی اس میں شامل ہوگا۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟

جوابِ وضاحت: میں عالم ہوں، مجھ سے میرے جاننے والے نے پوچھا تھا، میں نے کہا کہ دار الافتاء سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی كیونکہ شوہر نے بیوی کے  اپنی بہن سے فون پر بات کرنے پر طلاق کو معلق کیا تھا اور بیوی نے بات نہیں کی بلکہ صرف میسج کیا تھا اور میسج کرنے کو بات کرنا نہیں کہا جاتا اس لیے شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے طلاق نہیں ہوئی۔ البتہ  اگر آئندہ کبھی بیوی نے اپنی بہن سے فون پر بات کرلی تو ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی جس کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تو رجوع ہوجائے گا اور نکاح باقی رہے گا اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت گزرنے پر یہ نکاح ختم ہوجائے گا جس کے بعد میاں بیوی کو دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے باہمی رضا مندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

الدر المختار (5/625) میں ہے:(الكلام) والتحديث (لا يكون إلا باللسان) فلا يحنث بإشارة وكتابة كما في النتف. وفي الخانية: لا أقول له كذا فكتب إليه حنث ففرق بين القول والكلام، لكن نقل المصنف بعد مسألة شم الريحان عن الجامع أنه كالكلام خلافا لابن سماعةقوله: (فلا يحنث بإشارة وكتابة) وكذا بإرسال رسول لأنه لا يسمى كلاما عرفا………. قوله: (عن الجامع) حيث قال: إذا حلف لا يكلم فلانا أو قال والله لا أقول لفلان شيئا فكتب له كتابا لا يحنث.البحر الرائق (4/559) میں ہے:واعلم أن الکلام لا یکون إلا باللسان ، فلا یکون بالإشارة ولا بالکتابة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved