• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی سے لڑائی کے دوران طلاق، طلاق، طلاق،  کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گھریلو معاملات کی وجہ سے گھر میں لڑائی ہوئی، دو تین دن تک لڑائی جاری رہی،ایک پوری رات لڑائی ہوتی رہی،صبح چار بجے میرے شوہر نے سخت غصے میں تھپڑ مارے اور ڈنڈا بھی مارا اور تین دفعہ واضح الفاظ میں کہا”طلاق،طلاق،طلاق”اور موقع پر میرے شوہر کا باپ اور بہن موجود تھے،تین دفعہ کہنے کے بعد شوہر کے باپ نے روکا پھر شوہر شرمندہ ہوا اور معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا میں نے دل سے نہیں کہا۔اس مسئلہ کا شرعی حکم بتا کر راہنمائی فرمائیں۔

نوٹ: شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ غصہ میں اس سے کوئی خلاف عادت کام نہیں ہوا اور طلاق کے الفاظ بولتے وقت وہ  اپنے ہوش وحواس میں تھا اور اسے معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوگئی ہے،لہذا اب رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں اگر چہ شوہر نے غصہ کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن طلاق کے الفاظ بولتے وقت چونکہ  شوہر اپنے ہوش وحواس میں تھا اور  اسے علم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے نیز اس سے کوئی خلاف عادت قول وفعل بھی صادر نہیں ہوا اور  غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق معتبر ہوتی ہے،لہٰذا شوہر نے بیوی سے لڑائی کے دوران جب تین دفعہ طلاق کا لفظ بولا تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔ نیز طلاق کے الفاظ میں اگرچہ بیوی کی طرف اضافت نہیں پائی جارہی لیکن معنی اضافت پائی جارہی ہے کیونکہ عام طور پر طلاق کا لفظ بیوی کو ہی بولا جاتا ہے اور سوال میں بھی یہی معلوم ہو رہا ہے کہ شوہر نے طلاق کے الفاظ بیوی کو ہی بولے ہیں۔

شامی(439/4)میں ہے:وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده ،وهذا لا إشكال فيه۔ الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه…………..(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وافعاله الخارجة عن عادته………  فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدهاردالمحتار (444/4)میں ہے:ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه، لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته…………….ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأته طالق او قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم اعن امرأتي يصدق ويفهم منه انه لو لم يقل ذالك تطلق امرأته، لان العادة ان من له امرأة انما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف اليها مالم يرد غيرها لانه يحتمله كلامهہندیہ(349/1)میں ہے:أما البدعى الذي يعود الى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد بكلمة واحدة او بكلمات متفرقة….فاذا فعل ذالك وقع الطلاقشامی(509/4)میں ہے:فروع: كرر لفظ الطلاق وقع الكل وإن نوى التأكيد دين.بدائع الصنائع(295/3)میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الاصلى هو زوال الملك وزوال حل المحلية ايضا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عزوجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} سواء طلقها ثلاثا متفرقا او جملة واحدة….الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved