• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

برين ٹیومر(دماغی بیماری) میں مبتلا شخص کی طلاق کا حکم

استفتاء

میرا بیٹا  تقریبا دو سال سے برین ٹیومر (دماغی بیماری) میں مبتلا ہے۔ ڈاکٹروں  سے علاج جاری ہے تاحال کچھ فائدہ نہیں ہوا ، ایک دن  مریض کی بیوی کے بھائی  نے کہا کہ میں اپنی بہن کو  اپنے  گھر  لے جانا چاہتا ہوں ، مریض نے انکار کردیا لیکن مریض کے والد نے  لڑکی کے بھائی کو کہا  کہ لڑکے کی باتوں میں نہیں آنا کیونکہ لڑکا سخت بیمار ہے اور اشارہ کیا کہ کل پرسوں لے جانا ۔ جب  اگلے دن مریض  اٹھا اور پوچھا کہ میری بیوی  کہاں ہے؟ اسے بتایا کہ وہ  اپنے بھائی کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی ہے۔ اس وقت مریض  کے دوائی لینے کا وقت تھا  لیکن اس نے دوائی نہیں لی تھی، اتنے میں مریض غصہ ہو کر   اپنی ماں اور بہن  کو مارنے لگا، پھر کلاشنکوف اٹھا کر کمرے کا فرنیچر (الماری وغیرہ) توڑا  اور پھر کلہاڑی کے ساتھ کلاشنکوف  کو توڑ دیا، اس کے بعد موبائل سے اپنی بیوی  کے بھائی کو  وائس میسج کیا  کہ میں نے منع کیا لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی۔ اب سے آپ  کی بہن مجھ پر ثلاثہ طلاق ہے  اور بہن ہے اور  اگر میری بیوی گھر آئی  تو گولی مار دوں گا ، پھر دوائی کھانے کے بعد جب ہوش میں آیا تو ان الفاظ سے انکاری ہے اور پچھتا رہا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ  مذکورہ صورت میں  طلاق واقع ہوگی یا نہیں ، اگر واقع ہو گی تو کتنی ؟

وضاحت مطلوب ہے: (1) میاں بیوی کا رابطہ نمبر مہیا کیا جائے (2) وائس میسج مہیا کیا جائے۔

(2) وائس میسج پشتو میں ہے اس کا  ترجمہ یہ ہے:

"تمہاری بہن میری طرف سے (خلاص) آزاد ہے سات طلاقوں کے ساتھ، طلاق ہے اگر  میں اس کو بیوی بناؤں،  ثلاثا طلاق ہے۔ عارفہ مجھ پر بہن ہے،  ٹھیک ہے، نہ اسے بیوی بناؤں گا  اور  نہ میری بیوی ہے، آزاد ہے میری طرف سے، اس کے بعد  اگر میرے گھر آئی تو طلاق ہے کہ میں اسے قتل کردوں گا  اور میں اسے گولی ماردوں گا ، پشتو میں سمجھ جاؤ  ٹھیک ہے ، بھیجنا  مت اسے”

شوہر کا مؤقف:

” مذکورہ تمام تفصیلات ایسے ہی ہیں جیسا کہ بیان کی گئی ہیں ، مجھے اس وقت  بالکل بھی خبر نہیں تھی کہ میں نے کیا کیا اور کیا میسج کیا ، جب میرا غصہ کم ہوا  تو مجھے بعد میں والد صاحب نے  بتایا کہ تم نے وائس میسج کر کے اپنی بیوی کو ایسے ایسے کہا ہے”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی  کیونکہ شوہر نے جس وقت مذکورہ الفاظ  کہے ہیں  اس وقت  اس کی دماغی کیفیت درست نہیں  تھی  اور ایسی کیفیت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔

توجیہ: جب غصہ  اتنا شدید ہو کہ شوہر سے خلافِ عادت اقوال یا افعال سرزد ہونے لگیں تو غصے کی اس کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر  نہیں ہوتی، مذکورہ  صورت میں چونکہ شوہر دماغی مریض  بھی ہے اور طلاق دیتے وقت اس سے خلافِ عادت  افعال یعنی  ماں  بہن کو مارنا ، کلاشنکوف سے فرنیچر توڑنا، پھر کلہاڑی سے  کلاشنکوف توڑنا  بھی صادر ہوئے ہیں لہذا  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی شامی(4/439) میں ہے:

قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها ‌أن ‌يحصل ‌له ‌مبادي ‌الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله………. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved