• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چند الفاظ جن سے طلاق واقع نہیں ہوتی

استفتاء

میں اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے تمہیں اپنی زندگی سے الگ کرنے کا فیصلہ کر رہا ہوں، کیونکہ اب تک جو واقعات ہو چکے ہیں، تمہاری طرف سے اور تمہارے گھر والوں کی طرف سے جو سلوک تم نے میرے ساتھ کیا ہے۔ اس کے بعد میرا تمہارا گذار نہیں ہو سکتا اور اب ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے، ہم دونوں نے جیسے تیسے بچوں کے مستقبل کے خاطر یا دنیاوی باتوں سے بچنے کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ 13 یا 14 سال گذارے ہیں لیکن جب ایک دوسرے کی عزت دل سے ختم ہو جائے تو الگ ہو جانا ہی بہترین حل ہے بجائے اس کے ہمارے گھر کا تماشا دنیا دیکھے جو کہ پہلے ہی لوگ دیکھ چکے ہیں، لہذا مہربانی فرما کر تم بھی اس بارے میں اچھے طریقے سے غور کرو۔ اور میں  سوچتا ہوں کہ ہم پیار سے اچھے طریقے سے علیحدہ ہو جائیں میرا جہاں تک خیال ہے کہ تم نے تو فیصلہ تقریباً کر لیا ہے، پس میری ہی دیر ہے۔ لہذا  چندا تم فیصلہ کر لو اور میں بھی فیصلہ کر لیتا ہوں کہ ہم نے کس طریقے سے علیحدہ ہونا ہے۔ باقی رہ گئی بچوں کی بات وہ بھی آپس میں بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔ باقی تم پھر بھی فیصلہ کر لو کہ علیحدگی میں صرف تین لفظ در کار ہوتے ہیں:  ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘۔

نوٹ: مفتی صاحب یہ جو الفاظ میں نے تحریر کیے ہیں گھر والی کو ڈرانے سمجھانے کی نیت سے لکھے تھے، اس سے میری مراد یعنی ان الفاظ کے لکھنے سے میری مراد طلاق دینے کی نہیں تھی، لہذا مہربانی فرما کر شریعت کی رُو سے میری رہنمائی فرمائیں۔

مفتی صاحب! اگر مجھ سے اس تحریر کے بارے میں کوئی سوال پوچھنا ہو تو میں اپنا فون نمبر نیچے لکھ رہا ہوں۔ مفتی صاحب اس کے علاوہ مجھے جادو کے بھی سخت اثرات ہیں، جادو کے اثرات کی وجہ سے میں نے اکثر کئی غیر محرموں کا ہاتھ بھی پکڑ لیا ہے اور اس وقت میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہوتا ۔ لہذا جادو کا علاج بھی میرا جاری ہے، اس بارے میں آپ میرے گھر والوں یعنی والد صاحب اور والدہ محترمہ سے بھی دریافت کر سکتے ہیں۔

بندہ نے جب بیوی کے بارے میں جو تحریر لکھی تھی بعد میں اس وقت اس تحریر کو ختم کرنے کی نیت سے تحریر میں لائنیں لگا دی تھیں یعنی کاٹ دیا تھا اور گھر میں ایک جگہ پر رکھ دیا، اچانک وہ کاغذ بیوی کے ہاتھ لگ گیا اور وہ ناراض ہو کر اپنے گھر چلی گئی۔

مفتی صاحب! یہ ساری صورت حال آپ کے سامنے ہے شریعت کی رُ وسے رہنمائی فرما دیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بدلہ دونوں جہانوں میں عطا فرما دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شوہر کی تحریر میں جن الفاظ سے طلاق کا شبہ ہو سکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

’’میں اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے تمہیں اپنی زندگی سے الگ کرنے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔‘‘

اس عبارت میں ’’فیصلہ کر رہا ہوں‘‘ کا جملہ اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے ’’طے کر رہا ہوں‘‘ کے معنیٰ میں ہے، اس معنیٰ کی رُو سے اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی  کیونکہ اس جملے کی رُو سے شوہر فی الحال اپنی بیوی کو اپنی زندگی سے الگ کرنے کا فیصلہ/ طے کر رہا ہے یعنی سوچ رہا ہے ابھی تک اس نے الگ کرنے کا فیصلہ کیا نہیں۔ لہذا اس جملے سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔

’’تمہاری طرف سے اور تمہارے گھر والوں کی طرف سے جو سلوک تم نے میرے ساتھ کیا ہے اس کے بعد میرا تمہارا گذارہ نہیں ہو سکتا، اور اب ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔‘‘

اس عبارت میں بھی شوہر نے گذارہ نہ ہو سکنے کو اور اکٹھے نہ رہ سکنے کو ذکر کیا ہے جو انشاء طلاق پر دلیل نہیں۔

’’چندا تم فیصلہ کر لو، اور میں بھی فیصلہ کر لیتا ہوں کہ ہم نے کس طریقے سے علیحدہ ہونا  ہے۔‘‘

یہ عبارت بھی ماضی یا حال میں فیصلہ کرنے کی دلیل نہیں بلکہ مستقبل میں فیصلہ کرنے سے متعلق ہے۔

’’باقی تم پھر بھی فیصلہ کر لو کہ علیحدگی میں صرف تین لفظ در کار ہوتے ہیں: طلاق، طلاق، طلاق۔‘‘

یہ عبارت بھی انشاء طلاق پر دلیل نہیں کیونکہ اس عبارت کے ذریعے علیحدگی میں جو تین لفظ درکار ہوتے ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے، طلاق دینے کی غرض سے یہ الفاظ نہیں لکھے گئے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ تحریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جسے طلاق کی بنیاد بنایا جا سکے۔

لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved