• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

چرس کےنشے میں طلاق دینے کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری میاں بیوی کی لڑائی ہوئی جس میں میں نے غصے کی حالت میں بیوی کو یہ الفاظ بول دیے کہ ’’میں نے فارغ کرا، میں نے فارغ کرا ،میں نے فارغ کرا ‘‘میں نے غصے میں الفاظ بول دیے اور الفاظ بولتے وقت مجھے نہیں پتہ چلا کہ میں نے کیا کہا البتہ  الفاظ بولنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میں نے کیا کر دیا میں نے اس وقت سلنڈر بھی اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا بندہ کی ان الفاظ سے  طلاق دینے کی نیت نہیں تھی کیونکہ مجھے طلاق کا معلوم ہی نہیں تھا کہ طلاق دی ہے بعد میں پتا چلا کہ یہ کر بیٹھا ہوں

نوٹ:میں چرس پیتا ہوں جس وقت یہ واقعہ پیش آیا اس وقت بھی چرس پی تھی اورنشہ چڑھا ہوا تھا جس میں مجھے کچھ پتہ نہیں چلا کہ کیا کیا۔

بیوی کا  بیان:

لڑائی جھگڑا اس وجہ سے ہوا کہ میرا شوہر بچوں کو نہیں اٹھاتا ہیرا   پھیری کرتا ہے اور جب لڑائی ہوئی تو انہوں نے یہ کہا کہ ’’جا میں تینوں چھڈیا  ،جا میں تینوں طلاق دتی ،جا  میں تینوں طلاق دتی ،جا میں تینوں طلاق دتی‘‘ جبکہ ان کے بھائی نے بھی منہ پر ہاتھ رکھا تھا لیکن انہوں نے   ہاتھ ہٹا کر تین مرتبہ طلاق دے دی۔میں بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ میرے شوہر اپنے آپ میں نہیں تھے انہوں نے نشہ کیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے جس وقت طلاق کےالفاظ بولے اس وقت اس نے چرس کانشہ کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا ۔اور نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کےبارے میں حنفیہ کااگرچہ راجح موقف یہی ہے کہ یہ طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن حنفیہ میں سے ہی بعض بڑے حضرات اوربعض صحابہ وتابعین کاموقف یہ ہے کہ نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ ہمارے زمانے میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع ماننے سے اکثر زد بیوی پر ہی پڑتی ہے، لہذا بیوی بچوں کی مجبوری کی وجہ سے ان حضرات کے قول پر عمل کیا جا سکتا ہے، جو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کو واقع نہیں مانتے۔

فتح القدير: 3/ 472)میں ہے:

و في مسئلة طلاق السكران خلاف عال بين التابعين و من بعدهم فقال بوقوعه من التابعين سعيد بن المسيب و عطاء و الحسن البصري و إبراهيم النخعي و ابن سرين و مجاهد و به قال مالك و الثوري و الأوزاعي و الشافعي في الأصح و أحمد في رواية و قال بعدم وقوعه القاسم بن محمد و طاؤوس و ربيعة و الليث و أبو ثور و زفر و هو مختار الكرخي و الطحاوي و محمد  بن سلمة من مشائخنا.

شامی (4/432)میں ہے:

(و يصح طلاق …..السكران) و لو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجراً و به يفتي تصحيح القدوري.

رد المحتار: (4/434)میں ہے:

و في التاترخانيه: طلاق السكران واقع ….اذاسکرمن الخمراوالنبيذ و هو مذهب أصحابنا.

رد المحتار:(1/ 74)میں ہے:

مذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتی لنفسه لكون المرجوح صار منسوخاً و قيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنی النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل  بالضعيف من الرواية في حق نفسه نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عامياً فلم أره، لكن مقتضی تقييده بذي الرأي انه لا يجوز للعامي ذلك، قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنی النصوص و الأخبار و هو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها و إن كان مخالفاً لمذهبه قلت لکن هذا في غير موضع الضرورة فقد ذكر في حيض البحر في بحث ألوان الدماء أقوالاً ضعيفة ثم قال و في المعراج عن فخر الأئمة: لو أفتی مفت بشئ من هذه الأقوال في مواضع الضرورة طلباً للتيسر كان حسناً.اھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved