• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سی ایس ڈی ادارے کی شرائط کی شرعی حیثیت

برائے کرم جب سوالات والی ڈاک  جائے تو اس نمبر *** پر اطلاع بذریعہ میسج یا کال کر کے دے دیں تاکہ قلبی اطمینان ہو جائے، مجھے انتظار رہے گا۔ تمام سوالات کے مدلل مفصل دو ٹوک جوابات ارشاد فرمائیے گا۔

محسنین گرامی قدر CSD والے مسئلے پر خصوصی توجہ اور محنت فرما کر مفصل جواب اور متبادل جائز امور تحریر فرمائیے گا۔ ہم نے اس شعبہ کے اعلیٰ حکام سے بات کی ہے تو انہوں نے بھی اتفاق کیا ہے کہ آپ جائز صورت حال سے آگاہ کریں تو ہم وہ طریقہ کار ہی پاک فوج میں رائج کر دیں گے۔ حضرات گرامی ہاتھ جوڑ کر دوبارہ عرض ہے کہ خصوصی شفقت فرمائی۔

استفتاء

ہمارے وطن عزیز پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ملازمین کے لیے ایک ادارہ CSD کے نام سے قائم ہے جس سے ملازمین حضرات وقتاً فوقتاً اپنی ضرورت کی چیزیں مثلاً موٹر سائیکل، فریج، گاڑی وغیرہ قسطوں پر خریدتے ہیں جو کہ باہر سول کی نسبت کم ریٹ پر مل جاتی ہیں، کوئی چیز CSD سے قسطوں پر خریدنے کے لیے ان کی طرف سے دیے گئے فارم اور اس فارم پر تحریر شرائط کی پابندی کرنا لازمی ہوتا ہے:

1۔ اگر قسط کو بروقت ادا نہ کیا گیا مثلاً کسی نے مارچ 2016ء کے مہینہ کی قسط کسی مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کی تو اپریل 2016 میں پچھلی قسط یعنی مارچ والی قسط اور قسط کا 2 فیصد جرمانہ لگا کر اپریل میں ادا کرنا لازمی ہو گا۔ یعنی کوئی بھی قسط کسی مجبوری کی وجہ سے یا جان بوجھ کر بروقت ادا کرے گا تو اگلے ماہ جرمانہ 2 فیصد کے ساتھ ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ کیا خریداری سے پہلے CSD ادارہ کی طرف سے یہ شرط لگانا شرعاً درست ہے؟ اور اس کی پابندی کے بغیر چیز نہ دینا کیسا ہے؟ کیا یہ شرط سودی شرط ہے؟

نوٹ: اگر شرط نمبر 1 ناجائز ہے تو سوال نمبر 1 کے جواب کے بعد متبادل طریقہ ارشاد فرما دیں تاکہ ادارہ کو بھی نقصان نہ ہو اور خریدار کو بھی سہولت رہے اور وہ اقساط بروقت ادا کرتا رہے۔

2۔ خریدار کا شرط نمبر 1 کو پڑھ کر اس ارادہ و نیت سے رضا مندی کے دستخط کر دینا کہ میں تمام قسطیں بروقت جمع کرواؤں گا اور مجھے یہ 2 فیصد جرمانہ نہیں دینا پڑے گا۔ کیا خریدار کا اس نیت سے اس شرط کو قبول کرنا اور دستخط کرنا شرعاً جائز ہو گا؟ کیا یہ عقد درست ہو گا؟ کیا اس نیت سے بھی قبول کرنا سودی شرط کو قبول کرنا کہلائے گا؟

3۔ اس ادارہ کی طرف سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جامع انشورنس گاڑی کے لیے لازمی اور موٹر سائیکل کے لیے اختیار ہے۔ اس کی شرعی حیثیت واضح فرما دیں جائز ہے یا نہیں؟

4۔ گاڑی کی اقساط یکمشت یعنی اکٹھی رقم مقررہ وقت سے پہلے ادا کرنے کی صورت میں بقایا اصل رقم (Principal Amount) کا 5 فیصد ٹرمینیشن چارجز (معاملہ ختم کرنے کے) ادا کرنا ہوں گے۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اگر یہ شرط درست نہیں تو اس کی متبادل شرط/ طریقہ ارشاد فرما دیں۔

5۔ قسطوں پر چیز بیچنے کی شرائط ارشاد فرما دیں جو جانبین کے لیے درست ہوں اور شریعت کے معیار کے مطابق ہوں۔

6۔ کیا 2 فیصد جرمانہ جس کا ذکر نمبر 1 میں کیا گیا ہے یہ جرمانہ دینا سود دینا کہلائے گا؟ اور ادارہ بھی سود لینے ولا کہلائے گا؟ شرعی حکم واضح فرما دیں۔

حضرات گرامی جوابات ارشاد فرما دیں اور جہاں متبادل کی ضرورت ہے وہ ضرور تحریر فرما دیں ان شاء اللہ تعالیٰ عملی طور پر تمام ناجائز امور کو درست کر دیا جائے گا اور ہم سب کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔ جزاکم اللہ خیراً

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ سوال نامہ میں پوچھے گئے امور قسطوں پر اشیاء کی خرید و فروخت سے متعلق ہیں جبکہ اس کے ساتھ منسلک فارم Hire Purchase Scheme سے متعلق ہے۔ یہ دونوں الگ معاملات ہیں۔ کیونکہ قسطوں پر ادھار فروخت کرنا تو ابتداء ہی سے بیع ہے جو کہ کچھ شرائط کی رعایت کے ساتھ جائز ہے، جبکہ ہائر پرچیز میں معاملہ ابتداءً تو اجارہ کہلاتا ہے اور پھر مخصوص مدت میں رقم کی مکمل وصولی کے بعد اجارہ کو بیع قرار دے دیا جاتا ہے اور وصول شدہ کرایہ کی رقم کو مبیع کی وصول شدہ قیمت کہا جاتا ہے۔ یہ بات درست نہیں کہ ایک معاملہ اجارہ اور پھر اسی کا نام بیع ہو جائے۔ اس لیے ہائر پرچیز کا معاملہ شرعاً درست نہیں۔ لہذا قسطوں پر خریدو فروخت کا شرعی طریقہ ذکر کیا جاتا ہے تاکہ درست اور شرعی طریقہ کے مطابق معاملہ کیا جائے۔ اس تفصیل کے ضمن میں فارم میں درج شدہ ناجائز امور کی نشاندہی اور اس کا جائز متبادل میں ذکر ہو جائے گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved