• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دباؤ کی وجہ سے بغیر پڑھے تین طلاق پر دستخط

استفتاء

 ایک شخص **** ولد **** کی شادی عرصہ بیس سال پہلے **** دختر **** سے ہوئی۔ جس کے بطن سے پانچ بچے ہوئے۔ عرصہ تقریباً نو سال پہلے **** اور **** کے درمیان بچی کے رشتہ کا تنازعہ پیدا ہوا۔ **** اپنی بیٹی کا رشتہ **** کی دوسری بیٹی کے ساتھ وٹہ سٹہ کرنا چاہتا تھا۔ **** نے اپنے والد کی غیر موجودگی میں اپنی ہمشیرہ کا سرپرست بن کر اس کا نکاح اور رخصتی **** کے بھائی کے ساتھ کردی۔ جب کہ **** نے اپنے بیٹے کی شادی **** کی بیٹی سے کرنے کے بعد اپنی بیٹی کا رشتہ **** کو دینے کے بجائے کسی اور جگہ کردیا۔ جس دن **** کی بیٹی کے رشتہ کی بات کسی اور جگہ پکی ہو رہی تھی اسی دن **** نے گھر والوں کی موجودگی میں اپنی ساس کو دھمکی دی کہ اب چونکہ تم نے اپنی بیٹی کا رشتہ تلاش کر لیا ہے تو لہذا میری بیوی کے لیے بھی نیا رشتہ تلاش کر لینا۔ لیکن طلاق کے واضح الفاظ بھی استعمال نہیں کیے۔ **** سے اس کا والد **** اپنی غیر موجودگی میں بیٹی کا رشتہ و رخصتی کرنے کی وجہ سے ناراض تھا۔ **** کی طرف سے بار بار مطالبہ پر بھی **** اپنی ضد پر ڈٹا رہا کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ تجھے نہیں دیتا۔ جس پر **** نے طے کر لیا کہ **** کی بیٹی **** کو اپنے بیٹے **** سے طلاق دلوا کر رہے گا۔ لہذا ایک دن **** نے اپنے دوسرے بیٹے کے ہاتھ اسٹام فروش سے **** کا طلاق نامہ لکھوایا۔ جس نے طلاق بائن کی تحریر بنا کر اسٹام **** کے بیٹے کو دے دیا۔ واضح رہے کہ اسٹام اور تحریر **** نے نہیں بنوایا۔ جب **** نے طلاق بائن کے الفاظ پڑھے تو اس نے دوبارہ اسی بچے کو واپس اسٹام فروش کے پاس بھیج دیا کہ اس پر طلاق ثلاثہ لکھ دو۔ اس نے طلاق بائن کے الفاظ کاٹ کر اسی لائن میں طلاق ثلاثہ کے الفاظ کا اضافہ کردیا۔ یعنی یہ تبدیلی دستخط کرنے سے پہلے ہوئی تھی۔ رات کا وقت تھا اگرچہ بجلی بھی موجود تھی لیکن انہوں نے یعنی **** نے جان بوجھ کر بلب نہیں جلایا۔ بلکہ دیا سلائی (ماچس) جلا کر **** کو کہا کہ اسٹام پر دستخط کردو۔ اس وقت **** کے ساتھ اس کے دو اور بیٹے بھی تھے تینوں باپ بیٹے غصے میں تھے۔ لیکن ان کے پاس کوئی اسلحہ یا چھری، چاکو، ڈنڈا کچھ بھی نہیں تھا۔ **** ابھی تک طلاق کی دھمکیوں کے باوجود طلاق نہیں دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے والد **** نے اسے مجبور کیا کہ یا تو میرا گھر چھوڑ دو اور میں تجھے اپنی جائیداد سے کچھ بھی نہیں دوں گا یا پھر اس طلاق نامہ پر دستخط کردو۔ غصے کے باوجود مارا پیٹا نہیں۔ اس وقت نواز کے لیے صورت حال یہ تھی کہ اپنے والد اور دونوں بھائیوں کی مار پیٹ کا خوف تھا۔ لیکن اس میں جان سے مارنے یا کسی عضو کے تلف ہونے کا کوئی خطرہ یا دھمکی نہیں تھی۔ صرف مار پیٹ کا ڈر تھا۔ دوسرا یہ کہ اپنے باپ کی جائیداد سے محرومی کا دکھ تھا، ڈر تھا۔ تیسرا یہ کہ ہمشیرہ کی شادی میں اس کا سرپرست بن کر جو اس نے اپنے والد کو ناراض کیا تھا اب اس طلاق نامہ پر دستخط کر کے اپنے والد کی نظروں میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس صورت حال میں نواز رو رہا تھا اس نے روتے ہوئے طلاق نامہ پر صرف ایک جگہ دستخط کردیے۔ واضح رہے کہ یہ طلاق نامہ نہ نواز نے خود پڑھا نہ اس کی بابت کوئی سوال و جواب ہوا نہ ہی کسی اور نے پڑھ کر سنایا۔ لیکن نواز کو یہ قطعی علم تھا کہ یہ طلاق نامہ ہے لیکن یہ علم نہ تھا کہ اس میں ایک، دو یا تین کا ذکر ہے۔

واضح رہے کہ طلاق سے کچھ عرصہ پہلے جبکہ اس کی بیوی **** اپنے میکے بیٹھی ہوئی تھی اس کے پاس تین بچے تھے جبکہ باقی دو بچے نواز کے پاس تھے۔ **** کے والدین نے بیٹی اور اس کے بچوں کے خرچہ کے لیے عدالت میں دعویٰ بھی دائر کیا ہوا تھا۔ جس پر نواز نے کچھ لوگوں کے ہاتھ یہ پیغام بھی بھیجاتھا کہ میرے سسرال سے کہہ دیں کہ عدالت سے کیس کا دعویٰ اٹھالیں ورنہ میں طلاق دے دوں گا۔ ساتھ میں یہ دھمکی کہ دوسری بیٹی کا رشتہ ہمیں دے دیں ورنہ میں طلاق دے دوں گا۔ یہ دھمکی اکثر و بیشتر نواز ہر واقف کار کے ذریعے دینے لگا۔ واضح رہے کہ نواز اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد ہے۔ لڑکا طبیعت نہیں رکھتا سیدھا سادہ اور شریف النفس طبیعت کا حامل ہے۔

طلاق دیے تقریبا نو سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا۔ مطلقہ اپنے میکے بیٹھی رہی۔ اب نواز یہ کہتا ہے کہ میرے اوپر میرے والد کا دباؤ تھا۔ جس کی وضاحت شروع میں گذر چکی ہے اور میرے علم میں نہ تھا کہ ایک دو تین طلاق لکھی ہوئی ہیں۔ اس مذکورہ دباؤ کے بغیر ہوسکتا ہے کہ میں دھمکیوں کے باوجود طلاق نہ دیتا۔ مزید یہ کہ **** بھی اپنی دھمکیوں میں طلاق دینے کی وارننگ دیتا رہا تھا۔ **** خود اور اس کے والدین کو ان دھمکیوں کا پورا علم تھا لیکن انہوں نے صلح صفائی یا مزاحمت کا کوئی راستہ اختیار نہ کیا بلکہ ان کی دھکمی پر یہ کہہ دیتے کہ کل کی بجائے آج طلاق دے دیں۔ ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور مزید یہ کہ خاوند مر بھی تو جاتے ہیں۔ ہم بھی یہی سمجھیں گے۔ لہذا اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بالکل واضح اور دو ٹوک جواب سے آگاہ کریں کہ ایسی صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں ایک یا دو یا تین ہوگئی۔

واضح رہے کہ **** طبعاً بزدل واقع ہوا ہے۔ جبکہ اس کے باقی بھائی اور والد لڑاکا اور متکبر طبیعت کے ہیں حتی کہ ایک دن نواز کے چھوٹے بھائی نے اس کی موجودگی میں نواز کی بیگم کو کرکٹ بیٹ سے مارا، اس کے بال نوچے اور یہ اپنی بیگم کو صرف بمشکل چھڑوا سکا اور اپنے بھائی کے سامنے لڑنے یا مارنے کے لیے بھی ہمت نہ کرسکا۔ کچھ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ والد اور بھائیوں کا دباؤ بہت زیادہ تھا لہذا طلاق واقع نہیں ہوئی یا زیادہ سے زیادہ ایک واقع ہوئی ہے جبکہ کچھ علماء کی رائے ہے چونکہ تحریر میں جو کچھ بھی لکھا تھا اس نے طلاق نامہ سمجھ کر دستخط کردیے چونکہ تحریر کے آخر میں دستخط اسی کے ہیں لہذا تحریر اسی سے منسوب ہوگی اور تین طلاق واقع ہوگئی۔

واضح رہے کہ **** بہت نیک اور گھریلو عورت ہے اس کے اخلاق و کردار کے بارہ میں کوئی شکایت نہیں ہے اور ساتھ یہ بھی کہ میاں بیوی میں آپس میں بہت محبت تھی ان کی آپس میں کبھی چپکلش نہ ہوئی ہے دوسرے لفظوں میں ہوسکتا ہے کہ والد مذکورہ دباؤ نہ دیتا تو شاید دھمکیوں کے باوجود بھی طلاق تک نوبت نہ آتی۔

کچھ فتاویٰ کو بنیاد بنا کر نواز اپنے سسرال والوں کومنا کر اپنی سابقہ بیوی **** سے دوبارہ نکاح پڑھوا لیا ہے اور اس وقت دونوں اپنے گھر ازدواجی زندگی گذار رہے ہیں۔ کیا یہ درست عمل ہوا یا غلط؟ اور اگر غلط ہوا تو جو لوگ نکاح کی محفل میں شریک تھے یا جس نے نکاح پڑھایا سب کچھ کیا ہوا؟ اگر یہ غلط عمل ہوا ہے تو باقی رشتہ داروں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب معتبر فتوؤں سے طلاق نہ ہونے کا فتویٰ مل گیا ہے اور نکاح کرلیا ہے تو اب مزید فتوے کی ضرورت نہیں ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved