• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ڈرانے کی نیت سے میسیج کے ذریعے طلاق کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری شادی چچا کے ہاں ہوئی ہے۔ عید کے روز میری اہلیہ نے مجھے اپنے گھر جانے کا کہا، اور جانے کے وقت سامان میں کپڑے وغیرہ رکھنے لگی، میں نے پوچھا تو اس نے کہا کچھ دن گھر رہ کر آنے کا ارادہ ہے، جس پر میں نے پہلے تو رضا مندی سے انکار کر دیا اور اس وقت کچھ ہلکی پھلکی بحث بھی ہوئی، لیکن وہاں سے آتے وقت میں نے اسے چھ روز کے لیے اجازت دے دی۔ چھ روز بعد جب میں نے اسے آنے کا کہا تو اس نے کچھ دن اور وہیں رہنے پر اصرار کیا، میرے زور دینے پر بھی جب وہ نہ مانی تو میں نے اپنی ساس سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے مجھے گھر آنے کا کہا، اسی شام میں ان کے گھر چلا گیا، لیکن رات گئے تک کسی نے بھی اس بارے میں بات نہیں کی، جب رات کو سونے کا وقت ہوا اور میں نے اپنی اہلیہ کو گھر چلنے کا کہا تو اس نے کہا کہ صبح چلیں گے، اس کے کہنے پر میں وہ رات بھی وہیں رک گیا، صبح سویرے میری بیٹی اٹھ گئی، اس کےساتھ ہی میں بھی جاگ گیا اور میری اہلیہ بھی جاگ رہی تھی۔ چونکہ صبح کا وقت تھا اور ٹھنڈ کا ٹائم تھا اس لیے میں نے یہ وقت گھرجانے کے لیے مناسب سمجھا اور اپنی اہلیہ سے جانے کا کہا، تو اس نے کہا ابو جاگ جائیں تو ان سے مل کر چلیں گے، پھر جب وہ جاگ گئے تو میں ان سے اجازت لے لی اور وہ کام پر چلے گئے، میں نے اہلیہ سے جانے کا کہا، تو اس نے ٹال مٹول شروع کر دی، اور جب میں نے زور دیا تو اس نے کہا شام کو چلیں گے، جس پر میں غصے میں کسی سے بھی ملے بغیر واپس آگیا اور انتظار کرتا رہا ہے کہ شاید چاچو (سسر) یا اہلیہ کا کوئی بھائی شام کو اسے لے آئے، لیکن وہ دن بھی گذر گیا اور وہ نہ آئی، اگلے دن تک مجھے بہت غصہ آچکا تھا تو صبح گیارہ بجے کے قریب میں نے موبائل پر میسیج لکھا:  ’’main tum ko tallaq datha hno‘‘ اور پھر اسے بھیجے بغیر ہی ڈیلیٹ کر دیا۔ کچھ دیر بعد پھر یہی میسیج لکھا اور اپنی اہلیہ کو بھیج دیا۔ اس پر کوئی کسی نے رابطہ نہ کیا تو میں نے اسی شام چاچو کو کال کی اور اسے پوچھا کہ اب اس کا (یعنی اہلیہ کا) کیا آنے کا ارادہ نہیں ہے تو چاچو نے شام کو آکر بات کرنے کو کہا۔ پھر اس موضوع پر کوئی بات نہ ہوئی لیکن تین چار دن بعد چاچو ہمارے گھر آئے اور پرانے گلے شکوؤں پر بات کرتے رہے۔ اس ساری صورت کے پیش نظر آپ ہمیں شریعت کے حکم سے آگاہ فرمائیں کہ کیا طلاق ہو گئی ہے یا اب بھی صلح کی کوئی صورت ہے؟

وضاحت: اس میسیج سے میرا مقصد طلاق دینا ہرگز نہیں تھا، اور نہ ہی مجھے اس بات کا علم ہے کہ اس میسیج کا شرعی نتیجہ کیا ہو سکتا ہے، میرا مقصد صرف اہلیہ کو ڈرانا دھمکانا ہی تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں ذکر کردہ تفصیل حالات کے پیش نظر طلاق کے میسیج سے محض ڈرانے کی نیت کا ہونا وزنی بات نہیں، تاہم اگر شوہر مسجد میں جا کر اور قرآن پاک ہاتھوں میں لے کر یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ اور قرآن کی قسم کہ طلاق کا میسیج میں نے طلاق کی نیت سے نہیں لکھا بلکہ صرف ڈرانے کی نیت سے لکھا ہے، تو مذکورہ صورت میں کوئی طلاق نہیں ہو گی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved