• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ڈرانے دھمکانے کے لیے طلاق دینا

استفتاء

میں نے اپنی بیٹی*** کی شادی ہمراہ***سے دو سال قبل 2010 میں کی تھی۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کے شوہر نے اسے مارنا پیٹنا اور زد و کوب کرنا شروع کر دیا۔ اور گندی گالم گلوچ بھی کرنے لگا۔ مگر یہ بات میری بیٹی میرے علم میں نہ لائی کہ کہیں اس کا گھر خراب نہ ہو جائے۔ نیز یہ کہ مار پیٹ ہمیشہ گھریلو چھوٹی چھوٹی بحث و تکرار پر کرتا تھا۔ اس نے کبھی کوئی تہمت نہ لگائی اور نہ ہی اس قسم کی کوئی بات اپنی زبان سے کہی۔ میری بیٹی کے شوہر کی*** میں ہے۔ جبکہ میری بیٹی کا سسرال***میں ہے۔ اس بقر عید کو میری بیٹی عید کرنے اپنے سسرال***گئی تھی ہمیشہ کی طرح۔ وہاں اس کے شوہر نے معمولی بات پر اپنی ماں اور بہن کے سامنے اس پر بہت زیادہ تشدد کیا، جس پر میری بیٹی یہ تمام واقعات میرے علم میں لانے پر مجبور ہوگئی۔ اور میں اسے اپنے گھر لاہور لے آیا۔ جب **** کے والد سے **** میں اس معاملے پر گفتگو کی گئی تو اس کے والد نے کہا کہ اس طرح مار پیٹ اور گالم گلوچ ان کے علم میں نہیں تھی۔ اور یہ کہ اس طرح مار پیٹ بالکل غلط ہے۔ اور اب **** اس بات پر شرمندہ ہے۔ اور آئندہ اس طرح نہ کرے گا۔

جس پر میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ یعنی والدین اپنے بیٹے کی گارنٹی دیں اور اسٹامپ پیپر پر تحریر دیں کہ وہ آئندہ ہرگز مار پیٹ اور گالم گلوچ نہ کرے گا۔ اور **** کلام پاک پر حلف بھی دے کہ وہ ایسا ہرگز نہ کرے گا۔ بلکہ تمام معاملات کو بڑوں کے علم میں لائے گا۔ تو اس کے والد نے کہا کہ آپ بھی اپنی بیٹی کو سمجھائیں کہ وہ **** کی ہر بات خواہ وہ کچھ بھی کہے تسلیم کرے اور اس کے سامنے ہرگز نہ بولا کرے اور آپ بھی یعنی میں یہ بات اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دوں۔ میں نے ان کو بتایا کہ اس طرح نہیں ہوتا۔ معمولی اختلافات یا بحث مباحثہ ہر گھر میں ہوتا ہے۔ جو کہ آپس میں طے کر لیا جاتا ہے۔ میری بیٹی ایک پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ ایم ایس سی فزکس ہے۔ اور ہر صورت اپنا گھر بچانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اب تک مجھے یا اپنی ماں کو ان حرکات و معاملات سے بے خبر رکھا۔ میری بیٹی کے سسر نے کہا کہ لڑکا خود اور اس کی ماں مزید بات چیت کے لیے لاہور آئیں گے۔ میں نے منع کیا کہ لڑکے کی والدہ کو نہ بھیجیں بلکہ خود تشریف لائیں کیونکہ لڑکے کی والدہ کے آنے سے معاملات طے ہونے کی بجائے خراب ہونے کی زیادہ توقع ہے۔ لیکن دو دن بعد **** اور اس کی والدہ میرے گھر لاہور آگئے۔ گفتگو ہوتی رہی جس میں میں نے اپنی شرائط دہرائیں۔ کافی دیر بعد **** ان شرائط پر آمادہ نظر آیا۔ مگر یک لخت لڑکے اور اس کی والدہ نے اپنا بیگ اٹھایا اور میری بیٹی سے کہا کہ تم نے ہمارے ساتھ چلنا ہے یا نہیں؟ صرف ہاں یا نہیں میں جواب دو۔ میری بیٹی نے کہا: ہاں جانا ہے، مگر پہلے میرے ابو کے تحفظات دور کردو۔ اس پر لڑکے نے اپنی ماں کے سر پر ہاتھ رکھ کہا ” میں اپنی ماں کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ آئندہ تمہیں لینے نہیں آؤں گا”۔ یہ کہہ کر وہ دونوں ماں بیٹا ہمارے گھر سے چلے گئے۔

تقریباً آدھے گھنٹے بعد لڑکے کا فون آیا جو میں نے سنا۔ **** نے اصرار کیا کہ میں اس کی بات **** سے کرادوں جس پر میں نے اس کی بات **** سے کروا دی۔ **** نے کہا میں تمہاری شرائط تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں اور مجھے بتاؤ کہ سٹامپ پیپر کہاں ملتے ہیں۔ میری بیٹی نے کہا تم پچھلے دس سال لاہور رہ کر گئے ہو۔ تمہارے علم میں ہے کہ اسٹامپ پیپر کہاں سے ملیں گے۔ اس کے بعد **** کچھ دیر خاموش رہا۔ اور پھر اس نے کہا کہ” میں نے تمہیں طلاق دی”۔ میری بیٹی نے اسی وقت فون اپنے کان سے ہٹا کر مجھے بتایا کہ **** نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اونچی آواز سے رونے لگی۔ مزید کوئی بات فون پر نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد لڑکے کا موبائل پر میسج آیا کہ بچے کی پیدائش سے پہلے طلاق نہیں ہوتی۔ میں نے تمہیں بچے کی پیدائش کے بعد پراپر نوٹس بھیج دوں گا۔ پھر تین چار گھنٹے بعد مسلسل فون کالز اور میسج آنے شروع ہو گئے۔ فون کال کسی نے نہیں سنی۔ میسج میں کہا گیا کہ میں نے ہرگز تمہیں طلاق نہیں دی ہے۔ اور تم یہ ہرگز مت سمجھنا کہ میں نے تمہیں طلاق دی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے اور تم واپس میرے گھر آجاؤ اور یہ کہ میں کلام پاک پر حلف دینے کے لیے ہر وقت تیار ہوں کہ میں نے طلاق نہیں دی ہے۔ بلکہ میں نے صرف تمہیں ڈرایا تھا اور دھمکی دی تھی کہ میں ایسا کردوں گا۔ میں نے اپنی بیٹی کو کہا کہ کیا وہ حلف دے سکتی اس کے شوہر نے اسے تین بار کہا ہے کہ اس نے تمہیں طلاق دے دی ہے۔ میری بیٹی ایک مذہبی لڑکی ہے۔ اس نے کہا کہ دنیاوی زندگی کے مقابلے میں آئندہ نہ ختم ہونے والی زندگی زیادہ تحریر ہے۔ اس نے کہا میں شک میں مبتلا ہوں۔ میں ہرگز یہ حلف نہیں دے سکتی کہ **** نے کیا کہا تھا۔ یا تو اس نے کہ تھا کہ ” میں نے تمہیں دی یا پھر شاید یہ کہا تھا کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا، مجھے کنفرم نہیں ہے”۔ مزید یہ کہ **** نے بتایا کہ اس نے صرف ایک مرتبہ سنا کہ اس نے طلاق دے دی یا دے دوں گا۔ تین مرتبہ نہیں سنا۔ کیونکہ **** نے پہلی مرتبہ سننے کے بعد فون اپنے کان سے ہٹا لیا تھا اور رونے لگی تھی۔ لیکن **** اس بات پر بضد ہے کہ حلفاً کہنے کے لیے تیار ہے کہ اس نے ایک مرتبہ بھی طلاق نہیں دی۔ بلکہ اس نے کہا تھا کہ میں ایسا کردوں گا۔ اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ مجھے بتائیں کہ آیا اسطرح طلاق ہوگئی یا نہیں اور مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اب **** اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دینے کو بھی تیار ہے اور حلف بھی اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ اس کی تائید شوہر کے اس میسج سے ہوتی ہے کہ ” بچے کی پیدائش سے پہلے طلاق نہیں ہوتی”۔ شوہر کو اس بات پر حلف اٹھانا ہوگا کہ اس نے ایک سے زائد مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اگر وہ قسم کھا لے تو عدت تین ماہواریاں گذرنے سے پہلے پہلے رجوع کرسکتا ہے۔ رجوع کی صورت میں آئندہ کے لیے خاوند کے پاس دو طلاقوں کا حق باقی ہے۔

آپ اپنی بیٹی کو بھیجیں تو حالات کا پورا اندازہ کر کے بھیجیں کیونکہ جب آپ اپنی شرط پوری کرائیں گے تو کہیں بعد میں تکلیف نہ دیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved