• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبان سے کہے بغیر صرف دل میں طلاق دینے كا حكم

استفتاء

اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دل میں طلاق دے تو اس کی وجہ سے طلاق واقع ہو جائے گی ؟

وضاحت مطلوب :کوئی واقعہ  پیش آیا ہے یا معلوماتی سوال ہے ؟

جواب وضاحت : معلوماتی سوال ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق كے وقوع كے لئے زبان سے طلاق کےالفاظ كااداکرنا  ضروری ہےمحض دل میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں  ہوتی۔

ردالمحتار (420/4) میں ہے : قوله :(وركنه لفظ مخصوص )هو ما جعل دلالة علي معني الطلاق من صريح اوكنايةفتاوٰی محمودیہ(264/12) میں  ہے:زید نے اپنے ہی آپ کو اپنے دل میں بغیر حرکت کرے زبان کے کہا کہ تو نے اپنی بی بی کو طلاق دے دی اس کے جواب میں زید ہی  نے کہا کہ” ہاں "اور ہاں کو سن بھی لیا پس صرف ہاں کے سن لینے سے بکر کہتا ہے کہ طلاق واقع ہوگئی اگرچہ طلاق کو زبان سے نہ کہا ہو اور خالد کہتاہےکہ طلاق نہیں ہوگی جب تک کہ زبان سے نہ کہے ۔ان دونوں میں کون حق پر ہے ؟الجواب: خالد کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے ،کیونکہ وقوع طلاق کے لئے صرف نیت کافی نہیں بلکہ زبان سے کہنا شرط ہے اور صورت مسئولہ میں لفظ طلاق کا تلفظ نہیں کیا ،لہذا طلاق واقع نہیں ہوگی۔"لو اجری الطلاق علی قلبه،وحرك لسانه من غير تلفظ يسمع،لا يقع،اھ” مراقی الفلاح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved