• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقناموں کے بعد عدت کے اندر رجوع کرلیاتو کیا میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں؟

استفتاء

میرے بیٹے راحیل جاوید کی بیوی سے ناراضگی ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی بیوی تین ماہ سے اپنے والدین کے گھر میں تھی کہ میرے بیٹے نے مورخہ 3-8-2020 کو پہلی طلاق ڈاک کے ذریعے بھیجی جو انہیں وصول نہیں ہوئی تھی۔ پھر بیٹے نے دوسری طلاق 3-9-2020 کو ارسال کی وہ بھی انہیں وصول نہیں ہوئی۔ دونوں طلاق ناموں کی کاپیاں ساتھ لف ہیں۔ بیٹے  نے زبانی کبھی کوئی طلاق کا لفظ نہیں بولا۔ اب لڑکی کے والدین نے رابطہ کیا ہے کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کسی عالم دین یا مفتی سے فتویٰ لے کر آئیں اور بچی کولے جائیں۔

سائل: محمد جاوید شیخ (شوہر کے والد)۔شوہر کا رابطہ نمبر:

طلاق نامہ نوٹس اول:

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من مقر نے مسماۃ مذکوریہ کو کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن مابین فریقین مصالحت ناممکن ہے جس کی وجہ سے من مقر اپنی بیوی کو طلاقِ اول مورخہ 3-8-2020 دیتا ہوں۔ لہٰذا من مقر نے طلاق نوٹس لکھوا کر، پڑھ کر، سن کر، سمجھ کر بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ بلا ترغیب غیرے بدرستگی عقل رو برو گواہانِ حاشیہ اپنے اپنے دستخط ونشان انگوٹھا جات ثبت کردیئے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ المرقوم: 3-8-2020

طلاقنامہ نوٹس دوم:

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من مقر نے مسماۃ مذکوریہ کو کئی مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن مابین فریقین مصالحت نہ ہورہی ہے جس کی وجہ سے من مقر نے مورخہ 3-8-2020 مسماۃ مذکوریہ کو طلاق اول نوٹس ارسال کردیا تھا لیکن مابین فریقین کوئی بہتری نہ آئی ہے۔ اور آج مورخہ 3-9-2020 کو طلاق دوئم نوٹس ارسال کررہا ہوں لہٰذا اب من مظہر بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلا جبر واکراہ بلا ترغیب غیرے برضامندی خود وثبات عقل رو برو گواہانِ حاشیہ مسماۃ کو طلاق دوم دیتا ہوں۔ یہ کہ من مظہر نے طلاق دوم بحق نمرہ عارف تحریر کردیا ہے اور اس پر اچھی طرح سے پڑھ کر، سمجھ کر رو برو گواہانِ حاشیہ اپنے دستخط ونشان انگوٹھا ثبت کردیئے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ المرقوم مورخہ: 3-9-2020

شوہر کو دار الافتاء سے فون کیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا (رابطہ کنندہ: صہیب ظفر):

مجھے مذکورہ تحریر سے اتفاق ہے اور میں نے اپنی والدہ اور بھائی کے سامنے 3، اکتوبر کو رجوع بھی کرلیا تھا۔

بیوی کا بیان:

میرے شوہر نے دو طلاق نامے بھیجے ہیں لیکن ہمیں موصول نہیں ہوئے۔ پہلے طلاقنامے کے بعد سےاب تک تیسری ماہواری نہیں آئی کیونکہ اس کی ڈیٹ 15 سے 20، اکتوبر تک ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں لیکن شوہر نے چونکہ عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیا تھا اس لیے نکاح باقی ہےاور میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے 3-8-2020 کو طلاق کا پہلا نوٹس بھیجا تواس میں مذکور اس عبارت سے کہ: ’’ من مقر اپنی بیوی کو طلاقِ اول مورخہ 3-8-2020 دیتا ہوں‘‘ ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔ اس کے بعد جب شوہر نے 3-9-2020 کو دوسرا طلاقنامہ بھیجا تو اس وقت چونکہ بیوی عدت میں تھی اس لیے اس طلاقنامہ میں مذکور اس عبارت سے کہ ’’ من مظہر بقائمی ہوش وحواسِ خمسہ بلا جبر واکراہ بلا ترغیب غیرے برضامندی خود وثبات عقل رو برو گواہانِ حاشیہ مسماۃ کو طلاق دوم دیتا ہوں‘‘الصریح یلحق الصریح کے تحت دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی۔ اس کے بعد جب شوہر نے 3، اکتوبر کو رجوع کیا تو اس وقت بیوی کی عدت باقی تھی کیونکہ پہلے طلاقنامے کے بعد سے رجوع کی تاریخ تک تیسری ماہواری نہیں آئی تھی اس لیے شوہر کا رجوع درست ہوگیا اور نکاح باقی رہا۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

درر الحکام شرح غرر الاحکام (228/2باب العدة) میں ہے:

ومن حكمها [أي العدةِ]…….. صحة الطلاق فيها

فتاویٰ شامیہ (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

بدائع الصنائع (3/289) میں ہے:

وأما شرائط جواز الرجعة فمنها قيام العدة، فلا تصح الرجعة بعد انقضاء العدة؛ لأن الرجعة استدامة الملك، والملك يزول بعد انقضاء العدة، فلا تتصور الاستدامة

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved