• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقناموں کے نو ماہ بعد تیسرا طلاقنامہ لکھوایا لیکن دستخط نہیں کیے تو تیسری طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

استفتاء

میری شادی کے بعد میری بیوی کچھ عرصہ میرے ساتھ رہی پھر وہ اپنے گھر چلی گئی، میں نے اپنی بیوی کو پہلا طلاقنامہ 5، اکتوبر 2019ء کو بھیجا، اس کے بعد رجوع نہیں کیا۔ پھر اس کے اڑھائی مہینے بعد دوسرا طلاق نامہ 21، دسمبر 2019ء کو بھیجا۔ اس کے بعد میرے سسر سے میری بات ہوئی تو میں نے سسر سے کہا کہ بچی کو بھیج دیں لیکن انہوں نے نہیں بھیجا۔اس کے بعد سسرال والوں سے میری کسی قسم کی بات نہیں ہوئی۔ پھر میں نے اس کے نو ماہ بعد یکم ستمبر، 2020ء کو تیسرا طلاقنامہ بھی بنوا لیا لیکن نہ اس پر دستخط کیے اور نہ ہی بھیجا۔ طلاقناموں کی کاپی ساتھ لف ہے۔ ان طلاقناموں کی روشنی میں طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟ کیا میں دوبارہ اپنی بیوی کو رکھ سکتا ہوں؟

طلاقنامہ اول:

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شادی کے کچھ عرصے بعد ہم فریقین کے درمیان لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا جس کی بنا پر فریقین کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے، فریقین نے اپنے تئیں اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی مگر یہ اختلافات دور نہ ہوسکے جس کی بنا پر کافی سوچ بچار کے بعد من مقر نے اپنی بیوی مسماۃ خدیجہ عارف مذکوریہ کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا ہے، لہٰذا من مقر اپنی بیوی مسماۃ خدیجہ عارف کو ’’طلاق اول دیتا ہوں‘‘ یہ تحریر روبرو گواہان حاشیہ تحریر کردی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ مورخہ: 5، اکتوبر 2019ء۔ (دستخط شوہر)

طلاقنامہ دوم:

’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من مقر نے اپنی بیوی مسماۃ خدیجہ عارف مذکوریہ کو طلاق دوئم دینے کا فیصلہ کیا ہے، لہٰذا من مقر اپنی بیوی مسماۃ خدیجہ عارف کو ’’طلاق دوئم دیتا ہوں‘‘ یہ تحریر روبرو گواہان حاشیہ تحریر کردی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ مورخہ:21 دسمبر، 2019ء۔ (دستخط شوہر)

طلاقنامہ سوئم (حتمی طلاق):

’’۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹس دوئم کے بعد مصالحت کی بار ہا دفعہ کوشش کی گئی لیکن مسماۃ خدیجہ عارف کے بار بار اصرار اور آباد نہ ہونے کی وجہ سے من مقر مسماۃ خدیجہ عارف دختر ملک محمد عارف کو طلاق سوئم، حتمی طلاق (طلاق، طلاق، طلاق) دیتا ہوں۔ آج کے بعد من مقر کا مسماۃ مذکوریہ سے کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ہے۔ مسماۃ خدیجہ عارف بعد از مدتِ عدت چاہے عقدِ ثانی کرسکتی ہے جس پر من مقر کو کوئی عذر واعتراض نہ ہوگا۔یہ تحریر رو برو گواہان لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔ المرقوم : 01.09.2020

وضاحت مطلوب ہے کہ: (۱)۔  طلاقنامے اکٹھے تیار کروائے گئے یا ان پر جو کی تاریخیں لکھی ہوئی ہیں انہیں میں تیار کروائے گئے؟(۲)۔ 5، اکتوبر 2019ءکو بھیجے گئے پہلے طلاقنامے کے بعد بیوی کی تین ماہواریاں کب مکمل ہوئیں؟ یعنی دوسرا طلاقنامہ تین ماہواریاں مکمل ہونے سے پہلے بھیجا گیا تھا یا بعد میں؟

جوابِ وضاحت: (۱)۔ تینوں طلاقنامے ان پر لکھی ہوئی تاریخوں میں تیار کروائے گئے۔

(۲)۔ اس بارے میں بیوی سے رابطہ نہیں کرسکا، تین ماہواریاں پوری ہونے سے پہلے ہی بھیجا ہوگا۔(از شوہر)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: اگر پہلا طلاقنامہ بھیجنے کے بعد  عدت (تین ماہواریاں) گزرنے سے پہلے پہلے دوسرا طلاقنامہ بھیجا گیا تھا تو دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا اور اگر دوسرا طلاقنامہ عدت کےبعد بھیجا گیا تھا دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

توجیہ: شوہر نے 5، اکتوبر 2019ءکو جس طلاقنامے پر دستخط کیے اس میں مذکور اس جملے سے کہ ’’ من مقر اپنی بیوی مسماۃ خدیجہ عارف کو طلاق اول دیتا ہوں‘‘ایک رجعی طلاق واقع ہوئی جس کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر عدت (تین ماہواریوں) کے اندر رجوع کرلے تو رجوع ہوجاتا ہے اور نکاح باقی رہتا ہے، اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کرے تو عدت پوری ہونے پر نکاح ختم ہوجاتا ہے نیز عدت کے اندر اگر شوہر مزید طلاق دے دے تو وہ بھی واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں پہلا طلاقنامہ بھیجنے کے بعد شوہر نے رجوع نہیں کیا  اور اڑھائی مہینے بعد 21 دسمبر، 2019ء کو دوسرا طلاقنامہ تیار کروا کر بھیج دیا، اگر دوسرے طلاقنامے پر دستخط کرنے کی تاریخ تک بیوی کی عدت (تین ماہواریاں) مکمل نہیں ہوئی تھی تو اس دوسرے طلاقنامے میں مذکور اس جملے سے کہ ’’ من مقر اپنی بیوی مسماۃ خدیجہ عارف کو طلاق دوئم دیتا ہوں‘‘ مزید ایک رجعی طلاق واقع ہوئی جو سابقہ رجعی طلاق سے مل کر دو رجعی طلاقیں ہوگئیں۔ اور اگر دوسرے طلاقنامے پر دستخط کرنے کی تاریخ سے پہلے عدت (تین ماہواریاں) مکمل ہوچکی تھی تو نکاح ختم ہوجانے کی وجہ سے دوسرے طلاقنامے سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اس كے بارے میں بیوی سے پوچھ کر حتمی رائے قائم ہوگی۔ پھر اس کے نو ماہ بعد شوہر نے جو طلاقنامہ بنوایا، اول تو شوہر نے اس پر نہ دستخط کیے ہیں اور نہ بھیجا ہے اس لیے وہ بے فائدہ ہے، دوسرے یہ کہ اگر شوہر دستخط کرکے بھیج بھی دے تو عام طور سے اتنے عرصہ میں عورت کی عدت (تین ماہواریاں) پوری ہوجاتی ہے اور عدت پوری ہونے کے بعد بھیجے گئے  طلاقنامے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه

عالمگیریہ (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

درر الحکام شرح غرر الاحکام (228/2باب العدة) میں ہے:

ومن حكمها [أي العدةِ]…….. صحة الطلاق فيها

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد ………. فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

فتاویٰ شامیہ (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

در مختار (42/5) میں ہے:

وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالاجماع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved