• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوطلاق رجعی دینے کے بعد رجوع کرنے کا حکم

استفتاء

میرا نام***ہے، میں نے اپنی بیوی کو دو بار طلاق  کا لفظ بولا ہے تو کیا اس سے میرا نکاح ٹوٹ گیا ہے؟ میں نے اپنی بیوی کو چار افراد کے سامنے ایک دفعہ طلاق دی، میں نے کہا کہ ” میں تمہیں طلاق دیتا  ہوں”اس کے بعد رجوع کرلیا تھا، پھر پہلی طلاق کے آٹھ دن بعد دوسری دفعہ موبائل فون کے ذریعے اسے کہا کہ "میں نے تمہیں طلاق دی” لیکن اس وقت  نہ اس کے پاس کوئی موجود تھا اور نہ میرے پاس۔ میں نے غصے میں اپنی بیوی کو کہا تھا اور اس بات کو آٹھ دن ہوچکے ہیں اب ہم دونوں صلح کرنا چاہتے ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  میں  عدت  کے اندر رجوع ہوسکتا ہے اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے باہمی رضامندی سے  تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا جس میں گواہ بھی ہوں گے اور حق مہر بھی ہوگا۔

نوٹ: شوہر چونکہ پہلے بھی ایک طلاق دے چکا ہے اس لیے رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کے بعد شوہر کو ایک طلاق کا اختیار حاصل ہوگا۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں جب شوہر نے پہلی مرتبہ طلاق کے صریح الفاظ کہے کہ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی لیکن چونکہ شوہر نے اس کے بعد عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا  اس لیے سابقہ نکاح برقرار رہا پھر جب شوہر نے دوسری مرتبہ موبائل کے ذریعے پہلی طلاق کے آٹھ  دن بعد  طلاق کے صریح الفاظ کہے کہ”میں نے تمہیں طلاق دی” تو اس سے دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی  اب اگر شوہر عدت کے اندر  رجوع کرلے تو رجوع ہوجائے  گا اور سابقہ نکاح برقرار رہے گا لیکن اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو وہ رجعی طلاق بائنہ بن جائے گی اور نکاح ختم ہوجائے گا پھر دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجود گی میں نیا نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

تنویر الأبصار مع درمختار(4/443)میں ہے:

‌(صريحه ‌ما ‌لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)…… (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح……. (واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا).

فتاوی عالمگیری(1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله ‌أن ‌يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية

بدائع الصنائع ((3/180) میں ہے:

 الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها ‌حتى ‌انقضت عدتها بانت.

فتاوی عالمگیری(1/473) میں ہے:

اذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved