• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقیں دینے کے بعد’’تو میری طرف سے فارغ ہے‘‘ کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

میری شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں اور دو سال سے میں اپنے ابو کے گھر ہوں کیونکہ جب میں اپنے شوہر کے گھر تھی تو انہوں نے مجھے دو بار کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘اس وقت میرے سسر، میری ساس اور میرا بھائی بھی موجود تھے اور اس کے دو چار دن بعد غصے میں کہا کہ ’’میں نے تجھے نہیں رکھنا، تو میری طرف سے فارغ ہے‘‘ پھر اس کے دو اڑھائی ماہ بعد میں اپنے والدین کے گھر آگئی، میرے شوہر نے فون کیا اور مجھے اور میرے والدین کو اس طرح کی باتیں کہیں کہ ’’میں نے اسے نہیں رکھنا، میں نے اسے فارغ کردیا ہے، اس کا سامان لے جاؤ‘‘۔ اس کے بعد مجھے تین پیریڈ بھی آچکے ہیں، تو بتایا جائے کہ  طلاق کے بارے میں کیا حکم ہے؟

لڑکی کے والد کا بیان:

مفتی صاحب! میں فرزانہ کا والد ہوں، میری بیٹی کی شادی کو 5 سال ہوگئے ہیں اور 2 سال سے میری بیٹی میرے گھر ہے۔ اس کے شوہر نے 2 بار اسے طلاق دی ہے اور مجھے بھی فون پر کہا کہ ’’لے جاؤ اسے، میری طرف سے فارغ ہے یہ، اور اپنا سامان لے جاؤ‘‘ اس لیے میں اپنی بیٹی کو لے آیا ہوں۔ لہٰذا شریعت کے مطابق بتایا جائے کہ میری بیٹی کو طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: (1) شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

(2)  شوہر نے جب یہ کہا تھا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘ تو کیا اس کے بعد ’’تو میری طرف سے فارغ ہے‘‘ والے الفاظ بولنے سے پہلے رجوع ہوا تھا یا نہیں؟

جواب وضاحت: (1) میرے شوہر سے میرا دو سال سے کوئی رابطہ نہیں، انہوں نے نمبر بھی تبدیل کرلیا ہے۔

(2) ان دو چار دنوں میں ہماری ناراضگی ہی رہی ہے،  ہمارا میاں بیوی والا کوئی تعلق نہیں ہوا، انہوں نے مجھے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا اور نہ ہماری بات چیت ہوئی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوچکا ہے اور بیوی کی چونکہ عدت بھی گزر چکی ہے لہٰذا وہ آزاد ہے، جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں بیوی کے بیان کے مطابق جب شوہر نے دو دفعہ یہ کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘ تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے اس سے دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئیں، اس کے بعد شوہر نے چونکہ رجوع نہیں کیا لہٰذا اس کے دو چار دن بعد عدت کے اندر شوہر نے غصے کی حالت میں بیوی کو جب یہ جملہ کہا کہ ’’ تو میری طرف سے فارغ ہے ‘‘ اس سے سابقہ دو رجعی طلاقیں بائنہ ہوگئیں کیونکہ صریح طلاق کے بعد کنائی الفاظ بولنے سے طلاق کے صرف وصف میں اضافہ ہوتا ہے، عدد میں اضافہ نہیں ہوتا۔

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..

احسن الفتاویٰ (ج۵، ص۱۸۸) میں ہے:

’’سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے ’’تو فارغ ہے‘‘ یہ کونسا کنایہ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

الجواب باسم ملہم الصواب: بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ  بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘

امداد المفتین (521) میں ہے:

سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’۔۔۔۔۔۔تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا۔۔۔۔‘‘اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔  لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2)……..اور دوسری صورت میں دو طلاقیں بائنہ واقع ہو جائیں گی جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی کی عبارت مذکورہ سے معلوم ہوا اور اس کی توضیح درمختار میں اس طرح ہے "ولو نوى بطالق واحدة و بنحو بائن أخرى فيقع ثنتان بائنتان.

اور تیسری صورت میں بعض عبارات فقہیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ کنایہ ہدر و بیکار ہو جائیں گے اور طلاق رجعی اول باقی رہے گی۔۔۔۔۔اور بعض عبارات فقہیہ اس صورت میں بھی طلاق بائنہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ ( میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔۔الخ

امداد المفتین (511) میں ہے:

فى الخلاصة: وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2) اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ کنایہ اگر مطلقہ رجعی کے حق میں بولے جائیں تو طلاق جدید کی نیت کرنے سے طلاق جدید واقع ہوجاتی ہے اور کچھ نیت نہ کرنے سے پہلی طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved