• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دو طلاقیں دینے کے پانچ ماہ بعد طلاق نامہ  میں تین طلاقیں لکھ کر بھیج دیں ، کیا تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں؟

استفتاء

السلام علیکم! مفتی صاحب میرا نام حافظ محمّد شکیل ہے، میں فیصل آباد کا رہائشی ہوں اور سعودی عرب میں کام کرتا ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو گھریلو تنازعات کی وجہ سے 3 طلاقیں وقفے وقفے سے اس طرح دی ہیں کہ پہلی طلاق 2016ء میں اسٹام پیپر پے لکھ کر ایک طلاق کی نیت سے لفظ طلاق اوّل سے دی اور ایک مہینے سے پہلے رجوع کر لیا تھا اور 2017ء میں کام کے لئے سعودی عرب آ گیا ۔ دوسری طلاق 23 ستمبر 2019ء میں اپنی بیوی کو زبان سے کال پے اس طرح دی ’’میں تم کو ایک  طلاق دیتا ہوں‘‘ پھر رجوع نہیں کیا اور وقت گزرتا گیا۔   13 فروری 2020ء کو میں پاکستان واپس آگیا اور  19 فروری 2020ء کو تیسری طلاق کے لئے وکیل کے پاس جاکر طلاقِ ثلاثہ کا نوٹس اسٹام پیپر پہ لکھ کر بھجوا دیا۔ اس کی کاپی بھی ساتھ لف ہے۔ اب وہ لوگ مجھ سے معافی مانگ رہے ہیں اور صلح کا بول رہے ہیں۔ کچھ لوگ بولتے ہیں کہ طلاق ہوچکی ہے، اب صلح ممکن نہیں کیونکہ ٹوٹل 5 دفعہ طلاق دی گئی ہے۔

برائے مہربانی شرعی مسئلہ بتا دیں کہ شریعت میں صلح کی گنجائش ہے یا نہیں۔

طلاقنامہ اول کی عبارت:

’’۔۔۔۔۔۔۔۔ من مظہر مسماۃ سائرہ شفیق دختر محمد شفیق کے آئے دن لڑائی جھگڑے، بلا وجہ کالی گلوچ، بدتمیزی، بد کلامی، گستاخانہ رویہ سے تنگ آکر بقائمی ہوش وحواس اپنی مرضی سے من مظہر اپنی شریکِ حیات مسماۃ سائرہ شفیق دختر محمد شفیق کو روبرو گواہان مورخہ 06-09 -2016ء کو طلاق نامہ اول جاری کرتا ہوں، سو مسماۃ سائرہ شفیق جس سے مرضی شادی کرے جہاں مرضی جائے جس پر من مظہر کو کوئی عذر اعتراض نہ ہے۔‘‘

وضاحت مطلوب ہے کہ: (۱) دوسری طلاق کے بعد بیوی کی تین ماہواریاں کب مکمل ہوئیں تھیں؟

(۲) بیوی کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔

جوابِ وضاحت: (۱) میں نے بیوی سے پوچھا تھا، اس نے بتایا تھا کہ تین ماہواریاں مکمل ہونے کی تاریخ تو یاد نہیں لیکن عام عورتوں کی طرح ہر ماہ ماہواری آتی رہی ہے۔دوسری طلاق کے بعد تیسرا طلاقنامہ پانچ ماہ بعد بھیجا گیا تھا ، تاریخ درج ہے۔

(۳) میرا اس سے رابطہ ہوا اور میں نے اسکو بتایا اور اجازت بھی لی کہ نمبر دے دوں دار الافتاء والے آپ کو کال کریں گے لیکن اس نے انکار کردیا کہ اس نے بات نہیں کرنی اور نمبر دینے سے بھی انکار کردیا۔

سائل (شوہر):

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو طلاقیں واقع ہوئی ہیں تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی چونکہ عدت گذر چکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو چکا ہے  لہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں۔

نوٹ: (۱) دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو صرف ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

(۲) بیوی کا بیان لینے کے لیے شوہر سے بیوی کا رابطہ منگوایا گیا تو شوہر نے کہا کہ بیوی بات نہیں کرنا چاہتی، اس لیے مذکورہ جواب شوہر کے بیان کے مطابق دیا گیا ہے لہٰذا اگر بیوی کا بیان اس سے مختلف ہوا تو مذکورہ جواب کالعدم ہوگا۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے 2016ء میں جو طلاقنامہ بھیجا تھا اس میں موجود اس جملے سے کہ ’’ من مظہر اپنی شریکِ حیات مسماۃ سائرہ شفیق دختر محمد شفیق کو روبرو گواہان مورخہ 06-09 -2016ء کو طلاق نامہ اول جاری کرتا ہوں، مسماۃ سائرہ شفیق جس سے مرضی شادی کرے، جہاں مرضی جائے جس پر من مظہر کو کوئی عذر اعتراض نہ ہے‘‘  ایک رجعی طلاق واقع ہوئی۔  اگر یہ کہا جائے کہ طلاقنامے میں صریح طلاق والے جملے کے بعد مذکور جملہ کہ ’’ سو مسماۃ سائرہ شفیق جس سے مرضی شادی کرے، جہاں مرضی جائے جس پر من مظہر کو کوئی عذر اعتراض نہ ہے‘‘ کنایاتِ طلاق میں سے ہے لہذا اس سے بھی مزید طلاق واقع ہونی چاہیے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ طلاقنامے میں مذکور عبارت ایک ہی کلام ہے جس سے شوہر ایک طلاق دینا چاہتا ہے لہٰذا  جب تک شوہر کنائی جملے سے دوسری طلاق کی نیت نہیں کرے گا اس وقت تک دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔

اس کے بعد شوہر نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا اس لیے نکاح باقی رہا۔ پھر 23 ستمبر 2019ء کو شوہر نے جب کال پر بیوی کو کہا کہ ’’میں تم کو ایک طلاق دیتا ہوں‘‘تو اس جملے سے دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی تھی اور بیوی کی عدت شروع ہوگئی تھی، بقول شوہر اس نے عدت کے اندر رجوع نہیں کیاتھا، اور دوسری طلاق کے پانچ ماہ بعد تین طلاقوں کا نوٹس بھیجا تھا، اگر واقعی دوسری طلاق کے بعد تین طلاقوں کا نوٹس بھیجنے سے پہلے بیوی کی تین ماہواریاں گزر چکی تھیں تو اس طلاقنامہ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ دوسری طلاق کے بعد جب بیوی کی تین ماہواریاں مکمل ہوئی تھیں تو عدت پوری ہونے کی وجہ سے بیوی شوہر کے نکاح سے نکل چکی تھی، لہٰذا جب شوہر نے طلاقِ ثلاثہ والا طلاقنامہ بھیجا تھا تو بیوی شوہر کے نکاح میں نہیں تھی اس لیے یہ طلاقنامہ بے اثر رہا۔

در مختار (4/443) میں ہے:

(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) …….. (ويقع بها) أي بهذا الألفاظ وما بمعناها من الصريح …….. (واحدة رجعية

ہندیہ (1/386) میں ہے:

في النسفية سئل عن امرأة قالت لزوجها: با تو نمي باشم. قال: نا باشيده گير فقالت: أين چه سخن بود آن كن كه خداي تعالى ورسول خدا فرموده است بگو مرا طلاق تا بروم. فقال: "طلاق كرده گير برو” هل يقع الطلاق إن نوى الإيقاع تقع واحدة. قيل: أليس قوله "طلاق كرده گير” واحدة وقوله "برو” واحدة فقال يراد بهما الواحدة إلا أن ينوي ثنتين فتصح كذا في التتارخانية [4/471]

فتاویٰ تاتارخانیہ (4/470) میں ہے:

وفي الحاوي: قالت با تو نمي باشم فقال نا باشيده گير قالت نیکو نیکو طلاق ده تا بروم فقال داده گير وبرو قال تقع واحدة إن نوى وقوله "برو” مع ما قبله كلام واحد لا يقع ثانيا بقوله "برو” إلا بالنية.

عالمگیری (1/470) میں ہے:

وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.

بدائع الصنائع (3/289) میں ہے:

وأما شرائط جواز الرجعة فمنها قيام العدة، فلا تصح الرجعة بعد انقضاء العدة؛ لأن الرجعة استدامة الملك، والملك يزول بعد انقضاء العدة، فلا تتصور الاستدامة

بدائع الصنائع (3/ 283) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

فتاویٰ شامیہ (419/4) میں ہے:

قوله: (ومحله المنكوحة) أي ولو معتدة عن طلاق رجعي أو بائن غير ثلاث في حرة وثنتين في أمة……

ہدایہ (409/2، باب الرجعۃ) میں ہے:

‌‌فصل فيما تحل به المطلقة: "وإذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها” لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله

وفي فتح القدير تحته: قوله: (لأن زواله) مرجع الضمير الحل وضمير فينعدم للزوال.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved