• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دوسری جگہ سنادی کی صورت میں بچوں کے پرورش کا حق

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے خاوند کے انتقال کو ایک سال سے زیادہ گذر چکا ہے۔میری ایک بیٹی اور بیٹا ہیں جو ابھی نابالغ ہیں۔میں اپنی نند کے ساتھ رہائش پذیر ہوں۔میری نند نے میرے لیے ایک رشتہ تلاش کیا کہ میں نکاح کر لوں لیکن میں اپنے بچوں سے جدائی نہیں چاہتی،نکاح کرنے والا فی الحال تو اس بات پر راضی ہے کہ وہ میرے بچوں کا خرچہ بھی برداشت کرے گا لیکن مستقبل کے بارے میںں،میں کچھ نہیں کہہ سکتی تو کیا میں یہ شرط لگا سکتی ہوں کہ اگر آئندہ بچوں کا خرچہ برداشت کرنے سے وہ انکار کرے تو مجھے طلاق بائن واقع کرنے کا اختیار ہوگا۔

2دوسری بات یہ ہے کہ اگر میں نکاح کر لوں تو میرے علم میں یہ بات آئ ہےکہ بچوں کی پرورش کا حق میری نند کی طرف منتقل ہو جائے گا۔فی الحال تو وہ اس بات پر راضی ہیں کہ بچے میرے پاس رہیں لیکن مجھے ان پر اعتماد نہیں بعد میں ہو سکتا ہےکہ وہ بچےمجھ سے چھین لیں تو کیا ان سے کوئ وعدہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ آئندہ بچوں کو مجھ سے نہیں لیں گی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(2)ایسا وعدہ لینا شرعاً درست ہے۔تاہم یہ خیال درست نہیں کہ آپکے نکاح کے بعد پرورش کا حق بچوں کی پھوپھی کو حاصل ہوگا بلکہ پہلے یہ حق بچوں کی نانی کو ہوگا،نانی کے بعد دادی،دادی کے بعد بہن،بہن کے بعد خالہ اور خالہ کے بعد پھوپھی کا نمبر آتا ہے۔

واذا اضافه الى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا……..ولا تصح اضافة الطلاق الا ان يكون الحالف مالكا او يضيفه الى ملك(الفتاوى العالمكيرية،317/2،رشيدية جديد)

ثم أي بعد الام بأن ماتت او لم تقبل او اسقطت حقها او تزوجت باجنبي ام الام وان علت عند عدم اهلية القربى ثم ام الاب وان علت بالشرط المذكور…….ثم الأخت لاب وام ثم لام ثم الأخت لاب ثم الخالات كذلك ثم العمات كذلك (الدر المختار،كتاب الطلاق،باب الحضانة)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved