• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک لاکھ روپے کے بدلے میں طلاق دینا

استفتاء

شوہر نے بیوی (جس کی رخصتی نہیں ہوئی تھی) کو طلاق بالمال (ایک لاکھ روپے کے بدلے میں) دی اور مجلس میں قبضہ  علی المال کو کسی وقت کے ساتھ مقید بھی نہیں کیا، بیوی نے سنتے ہی کہا کہ مجھے منظور ہے  پھر دو دن گذر جانے کے بعد  شوہر کہتا ہے کہ میری نیت یہ تھی کہ اگر تین دنوں کے اندر اندر مال مل جائے تو  میں طلاق دیتا ہوں اور تین دنوں کا تذکرہ الفاظ میں  نہیں تھا۔

1۔کیا طلاق بالمال میں مال دینے سے قبل طلاق واقع ہوجاتی ہے یا نہیں؟

2۔کیا مال نہ دینے پر طلاق موقوف  رہتی ہے یا صرف گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے؟

کیا مجلس میں  کسی قسم کا تذکرہ نہ  کرنا اور دو دنوں کے بعد  یہ کہنا کہ میں نے طلاق کو تین دنوں  کے ساتھ مقید کیا ہے تو کیا اس طرح کرنے سے طلاق موقوف ہوجائے گی یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے: شوہر نے کیا الفاظ استعمال کیے تھے؟

جواب وضاحت: میں ایک لاکھ کے بدلے طلاق دیتا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ایک  طلاق بائن واقع ہوچکی ہے اگرچہ  بیوی نے ابھی تک مال ادا نہ کیا ہو گو بیوی کے ذمے مال ادا کرنا لازم ہے پھردو دن گذر جانے کے بعد یہ کہنا کہ میری نیت یہ تھی کہ "اگر تین دنوں میں مال مل جائے تو میں طلاق دیتا ہوں” تو اس نیت کا  کوئی اعتبار نہیں ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے یہ کہا کہ” میں ایک لاکھ کے بدلے طلاق دیتا ہوں” پھر بیوی نے قبول کرلیا تو اس سے ایک طلاق واقع ہوگئی اور چونکہ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی اور یہ طلاق مال کے بدلے تھی اس لیے بائنہ طلاق ہوئی جس سے نکاح ختم ہوگیا اور بیوی نے چونکہ ایک لاکھ کے بدلے طلاق لی ہے اس لیے اس کے ذمے ہے کہ شوہر کو ایک لاکھ روپے ادا کرے اور شوہر نے چونکہ طلاق کے الفاظ بولتے وقت  تین دنوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا  اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

البحر الرائق (4/126) میں ہے:

ودخل تحت الطلاق على مال لو طلقها على ‌إعطاء ‌المال لما في الخانية لو قال لامرأته أنت طالق على أن تعطيني ألف درهم فقالت قبلت تطلق للحال، وإن لم تعط ألفا

تاتار خانیہ(3/316) میں ہے:

قال محمد فى الاصل: إذا قال الرجل لامراته انت طالق بالف درهم فقبلت طلقت وعليها الف درهم وكذلك اذا قال انت طالق على الف درهم

وفى الهداية ولابد من القبول فى الوجهين:

وهذا بخلاف قوله: ان اعطيتني الف درهم فانت طالق ……… حيث لايقع الطلاق مالم يوجد الاداء

ہدیہ(2/414) میں ہے:

وان طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال لان الزوج  يستبد بالطلاق تنجيزا وتعليقا وقد علقه بقبولها والمرأة تملك التزام المال لولا يتها على نفسها وملك النكاح مما يجوز الاعتياض عنه وان لم يكن مالا كالقصاص وكان الطلاق بائنا

بہشتی زیور(ص:257) میں ہے:

مرد نے کہا میں نے سو روپے کے عوض میں طلاق دی تو عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے اگر نہ قبول کرے تو نہ پڑے گی اور اگر قبول کرلے تو ایک طلاق بائن پڑ گئی لیکن اگر جگہ بدل جانے کے بعد قبول کیا تو طلاق نہیں پڑی۔

حاشیہ ابن عابدین(5/613) میں ہے:

والحاصل أن نية تخصيص العام تصح في ظاهر الرواية ديانة فقط، وعند الخصاف تصح قضاء أيضا وهذا إذا كان ‌العام ‌مذكورا وإلا فلا تصح نية تخصيصه أصلا في ظاهر الرواية

الاشباه والنظائر(56) ميں  ہے:

تخصيص العام بالنية مقبولة ديانة لا قضاء وعند الخصاف يصح قضاء ايضا فلو قال: كل امراة اتزوجها فهي طالق، ثم قال: نويت من بلدة كذا لم يصح فى ظاهر المذهب خلافا للخصاف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved