• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک ماہ یا دو ماہ کے اندر دو طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

میرے ایک دوست نے اپنی بیوی کو 22-02-26 کو ایک طلاق دی اور دو ماہ بعد  رجوع کرلیا اور اکٹھے رہنے لگے، پونے دوسال بعد  آپسی ناراضگی اور لڑائی جھگڑے میں 23-11-16 کو دوسری اور ٹھیک دو دن بعد  23-11-18 جو تیسری طلاق دی  اب وہ صلح کی کوشش  کررہے ہیں جس کے لیے مختلف مفتیان کرام کی رائے لی گئی جن کے مطابق ایک وقت میں ایک طلاق ہوئی ہے جس کی مدت کوئی ایک اور کوئی تین ماہ بتا رہا ہے۔ مفتی صاحبان کا کہنا ہے کہ ابھی دوسری طلاق ہوئی ہے تیسری طلاق نہیں ہوئی، پہلے دوسری طلاق کی عدت پوری کرنا ہوگی پھر تیسری طلاق  ہوگی۔ آپ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ گنجائش باقی ہے یا نہیں؟

پہلے طلاقنامے کی عبارت:

"………………*** کو اپنی زوجیت میں نہ رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کہ اب من مقر  اپنے پورے ہوش وحواس خمسہ وثبات عقل خو*** کو طلاق کا پہلا نوٹس دیتا ہوں اور مقررہ میعاد پر مسماۃ مذکوریہ کو دوسرا نوٹس بھیج دوں گا۔ تحریر ہذا  روبرو گواہان لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے” المرقوم2022-02-26

دوسرے طلاقنامے کی عبارت:

"……………… من مقر*** کو اپنی زوجیت میں نہ رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کہ اب من مقر  اپنے پورے ہوش وحواس خمسہ وثبات عقل *** کو طلاق کا  دوسرا نوٹس دیتا ہوں اور مقررہ میعاد پر مسماۃ مذکوریہ کو تیسرا  نوٹس بھیج دوں گا۔ تحریر ہذا  روبرو گواہان لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے” المرقوم2023-11-16

تیسرے طلاقنامے کی عبارت:

"………………*** کو اپنی زوجیت میں نہ رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کہ اب من مقر  اپنے پورے ہوش وحواس خمسہ وثبات عقل خود*** کو طلاق کا تیسرا  نوٹس دیتا ہوں۔ میں طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں بعد از عدت جہاں چاہے عقد کرلے من مقر کو کسی قسم کا کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ یہ کہ من مقر مسماۃ مذکوریہ کو اپنے جسم پر حرام کردیتا ہوں ۔ تحریر ہذا  روبرو گواہان لکھ دی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے” المرقوم2023-11-18

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے  نکاح مکمل طور پر ختم  ہوچکا ہے اور بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں  جب شوہر نے پہلے طلاقنامے پر دستخط کیے تو طلاقنامے کے ان الفاظ سے کہ "*** کو طلاق کا پہلا نوٹس دیتا ہوں ” تو اس  سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی لیکن چونکہ عدت کے اندر رجوع ہوگیا تھا اس لیے سابقہ نکاح باقی رہا پھر اس کے بعد جب شوہر نے دوسرے طلاقنامے پر دستخط کیے تو دوسرے طلاقنامے کے ان الفاظ سے کہ*** کو طلاق کا دوسرا نوٹس دیتا ہوں” دوسری رجعی طلاق واقع ہوگئی پھر اس کے دو دن بعد جب شوہر نے عدت کے اند ر تیسرے طلاقنامے  پر دستخط کیے تو  طلاقنامے کے ان الفاظ سے ک*** کو طلاق کا تیسرا نوٹس  دیتا ہوں” الصریح یلحق الصریح کے تحت تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی  جس کی وجہ سے  نکاح مکمل طور پر ختم ہوگیا اور بیوی شوہر پر حرام ہوگئی۔

شامی (3/242) میں ہے:

الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة …… وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو

ہندیہ (1/472) میں ہے:

إذا كان الطلاق بائنا ‌دون ‌الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية

فتح القدیر (3/468) میں ہے:

وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا ‌بكلمة ‌واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق

(قوله وطلاق البدعة) ‌ما ‌خالف ‌قسمي ‌السنة، وذلك بإن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو مفرقة في طهر واحد أو ثنتين كذلك أو واحدة في الحيض أو في طهر قد جامعها فيه أو جامعها في الحيض الذي يليه هو، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا، وفي كل من وقوعه وعدده وكونه معصية خلاف، فعن الإمامية لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالة الحيض؛ لأنه بدعة محرمة…… وقال قوم: يقع به واحدة، وهو مروي عن ابن عباس – رضي الله عنهما -، وبه قال ابن إسحاق. ونقل عن طاوس وعكرمة أنهم يقولون خالف السنة فيرد إلى السنة ….. وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاثا………. وقول بعض ‌الحنابلة ‌القائلين ‌بهذا المذهب: توفي رسول الله – صلى الله عليه وسلم – عن مائة ألف عين رأته فهل صح لكم عن هؤلاء أو عن عشر عشر عشرهم القول بلزوم الثلاث بفم واحد بل لو جهدتم لم تطيقوا نقله عن عشرين نفسا باطل، أما أولا فإجماعهم ظاهر، فإنه لم ينقل عن أحد منهم أنه خالف عمر – رضي الله عنه – حين أمضى الثلاث، وليس يلزم في نقل الحكم الإجماعي عن مائة ألف أن يسمى كل ليلزم في مجلد كبير حكم واحد على أنه إجماع سكوتي. وأما ثانيا فإن العبرة في نقل الإجماع ما نقل عن المجتهدين لا العوام والمائة الألف الذين توفي عنهم رسول الله – صلى الله عليه وسلم – لا تبلغ عدة المجتهدين الفقهاء منهم أكثر من عشرين كالخلفاء والعبادلة وزيد بن ثابت ومعاذ بن جبل وأنس وأبي هريرة – رضي الله عنه – وقليل والباقون يرجعون إليهم ويستفتون منهم، وقد أثبتنا النقل عن أكثرهم صريحا بإيقاع الثلاث ولم يظهر لهم مخالف فماذا بعد الحق إلا الضلال. وعن هذا قلنا: لو حكم حاكم بأن الثلاث بفم واحد واحدة لم ينفذ حكمه؛ لأنه لا يسوغ الاجتهاد فيه فهو خلاف لا اختلاف، والرواية عن أنس بأنها ثلاث أسندها الطحاوي وغيره

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved