• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک مجلس میں تین طلاقیں

استفتاء

طلاق ثلاثہ

منکہ مسمی*** ولد *** قوم شیخ*** کا ہوں جوکہ من مقر کا نکاح ہمراہ مسماة*** دختر***سے مورخہ 1999۔10۔31 کو بمطابق شرح محمدی ہوا۔ مذکوریہ نے نکاح نامہ میں اپنے آپ کو کنواری ظاہر کیا حالانکہ وہ مطلقہ تھی ۔ اس شادی کے نتیجے میں دو بچے ، ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوئے جوکہ مسماة مذکوریہ کی حضانت میں ہیں۔ یہ کہ شادی کے بعد فریقین کچھ عرصہ تک راضی خوشی رہے۔ اس کے بعدفریقین کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے اور روزانہ لڑائی جھگڑا ہونے لگا۔ شادی کے کچھ دن بعد مسماة مذکوریہ بلاوجہ روٹھ کر اپنے بہن بھائیوں کے گھر چلی گئی۔ اورسامان جہیز اور سونا وغیرہ اپنے ساتھ لے گئے۔ اب من مقر کا اس کے ساتھ کوئی لین دین باقی نہ رہا ہے ۔ اور من مقر نے مذکوریہ کو 2006۔2۔1 کو زبانی طلاق دی ہوئی ہے اور آج مورضہ 2006۔11۔10 کو تحریری  طلاق دے رہاہوں۔ دونوں فریقین کے مابین تنازعات کو طے کرنے کے لیے دونوں فریقین کی طرف سےہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن فریقین کے مابین نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب وہ اللہ اور اس کے رسول کے قائم کردہ حدود کے اندر رہ کرایک دوسرے کے حقوق بطور میاں بیوی پورے نہیں کرسکتےہیں۔ لہذا من مقر آج بتاریخ 2006۔11۔10 بوجہ اختلافات ،تنازعات اپنی بیو ی مسماة مذکوریہ کو روبروگواہان ،طلاق ،طلاق، طلاق (ثلاثہ ) دیتاہوں اور اپنی زوجیت سے علیحدہ کرتاہوں اوراپنے نفس پر حرام کرتاہوں۔ آج کے بعد من مقر او رمسماة مذکوریہ کا بطور میاں بیوی کوئی تعلق واسطہ نہ رہاہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا۔ بعد از مدت عدت کے مسماة مذکوریہ جہاں چاہے عقد ثانی کرسکتی ہے من مقر کوکوئی اعتراض نہ ہوگا ۔ من مقر نے خود اپنی مرضی سے بلاجبر واکراہ بقائمی ہوش وحواس مسماة مذکوریہ کو طلاق ثلاثہ دے طلاق نامہ پر خود اپنے دستخط وانگوٹھا جات ثبت کردیئے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے ۔المرقوم مورخہ2006۔11۔10

نوٹ: طلاق ہذا کی کاپی برائے موثر کئے جانے طلاق متعلقہ چیئرمین ثالثی کونسل /ناظم علاقہ یونین کونسل کو ارسال کی جارہی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں بھی شرعاً تین ہی ہوتی ہیں ،تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کا یہی موقف ہے ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:

عن سعيد بن جبير أن رجلاً سأل ابن عباس أن رجلاًطلق امرأته مائة فقال ثلاث تحرمها وسبعة وتسعون في رقبته إنه اتخذ آيات الله هزواً.

ترجمہ: سعیدبن جبیررضی اللہ عنہ فرماے ہیں ایک آدمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فریاما کہ تین طلاقیں بیوی کو شوہر پر حرام کردیں گی اور باقی ستانوے طلاقیں اس کے گلے پڑینگی ،کیونکہ اس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنایا ہے ۔(شرح معانی الآثار،ص:36،ج:1)

    اس لیے مذکورہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہوکر بیوی شوہر کے لیے حرام ہوگئی ہے، اب نہ صلح ہوسکتی ہے اور نہ ہی رشتہ زوجیت دوبارہ قائم ہوسکتاہے۔

وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثاً فقال الشافعي و مالك وأبوحنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث.اھ (النووی ،ص:478،ج:1)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved