• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک تحریری طلاق کے بعد دو زبانی طلاقوں کا حکم

استفتاء

کيا فرماتے ہيں مفتیان  کرام درج ذيل مسئلہ کے بارے ميں کہ فيصل نے تقریباً 3سال قبل غصے میں اپنى بيوى کيليے عام کاغذ پرصرف اتنی بات  لکھی کہ” ميں نے تجھے ايک طلاق دى "اسکے بعد فيصل نے وہ پرچہ اپنى بيوى کو دينے سے پہلے ہى پھاڑ ديا اور میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے (اس  واقعہ کے تین سال بعد )   ابھى تقریباً 3ہفتے پہلےفيصل کو يہ بات معلوم ہوئى کہ اسکى بيوى کسى سے فون پر بات کرتى ہے تو فيصل نے اپنى بيوى کو کہا "کہ اگر تونے دوبارہ فلاں بندے سے بات کى تو تجھے تين طلاق ہيں "مذکورہ شرط کے بعد فيصل نے خود اس فلاں بندے کو کال کى اور کہا "کہ ميں نے اپنى بيوى کو ايک طلاق دى ” اور اس کے بعد بھی میاں بیوی اکٹھے رہتے رہے پھر اس واقعہ کے ايك ہفتہ  بعد فيصل کو يہ معلوم ہوا کہ مذکورہ شرط سے پہلے اسکى بيوى اور اس بندے کے درميان يہ بات بھى ہوئى تھى کہ اگر فيصل نے اپنى بيوى کو کبھى چھوڑ ديا(یعنی طلاق دے دى) تو وہ فلاں بندہ اور فيصل کى بيوى آپس ميں شادى کر ليں گے تو جب فيصل کو يہ معلوم ہوا تو فيصل نے دوبارہ اس بندے کو کال کى اور غصے ميں کہا "کہ آجا ميں نے اس کو (اپنى بيوى) چھوڑ ديا تو اسکو آکر لے جا "کيا اس صورت ميں طلاق ہوئى يا نہيں ہوئى؟واضح رہے کہ مذکورہ شرط کے بعد فيصل کى بيوى نے دوبارہ اس بندے سے بات نہيں کى اب فيصل اور اسکى بيوى کا نکاح برقرار ہے يا ختم ہوچکا ہے اور کيا اسکى بيوى پر عدت لازم ہے؟

نوٹ :اس مسئلہ کيوجہ سے کچھ معاملات رکے ہوئے ہیں جن کا حل اس مسئلہ پر موقوف ہے لہذا آپکى خدمت میں گذارش ہے کہ اس مسئلہ کا حل جتنا جلدى ہوسکے عنایت فرما دیں۔ جزاک اللہ خيرا

وضاحت مطلوب ہے:(1) سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے ؟(2)میاں بیوی دونوں کے نمبر مہیا کریں؟

جواب وضاحت :  (1)میں خود عورت کا بھائی ہوں اس لیے معلوم کر رہا ہوں   ۔(2)بیوی کے پاس موبائل نہیں ہے اس وجہ سے ان  سے رابطہ نہیں ہو سکتا  اور شوہر کو چو نکہ معلوم نہیں کہ ہم یہ مسئلہ معلوم کر رہے ہیں اس وجہ سے رابطہ کرنے کا فائدہ نہیں ہے،لڑائی جھگڑےہو جائیں گےاور دوسر ی بات   یہ ہے کہ شوہر اہلحدیث ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر واقعی ساری صورتحال ایسے ہی ہے جیسے سوال میں بیان کی گئی ہے تو      مذکورہ صورت میں اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے کاغذ پر لکھا تھا کہ” ميں نے تجھے ايک طلاق دى ” تو تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر  پر حرام ہوچکی ہےلہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے اور اگر شوہر نےمذکورہ جملہ  طلاق کی نیت سے نہیں لکھا تھا تو پھر دو رجعی طلاقیں واقع ہو گئی  ہیں اور رجوع ہو جانے کی وجہ سے نکاح باقی ہے آئندہ کےلیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے نیز شوہر کا اپنی بیوی کو یہ کہنا "کہ اگر تونے دوبارہ فلاں بندے سے بات کی تو تجھے تین طلاقیں ہیں "یہ تین طلاقیں  شرط پر موقوف تھیں  پهر  چونکہ عورت نےابھی تک  فلاں بندے سے بات نہیں کی لہذا  شرط نہیں پائی گئی اوراس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن اگر بیوی نے فلاں بندے سے بات کرلی تو تیسری طلاق بھی واقع ہو جائے گی ۔

تو جیہ: سادہ کاغذ پر لکھی گئی مذکورہ تحریر چونکہ غیر مرسومہ ہے اس لیے اس سے طلاق کا واقع ہونا نیت پر موقوف ہے لہذا اگرشوہر کی طلاق کی  نیت تھی تو طلاق رجعی واقع ہوگئی   ۔اس کے بعدچونکہ  میاں بیوی دونوں اکٹھے رہتے رہے ہیں اس لیے اس سےرجوع   ہو گیا اور نکاح برقرار رہا ۔

اس کے بعد جب شوہر نے  مذکورہ  شخص  کو فون پر یہ کہا  "کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی”تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے معنی میں صریح ہے لہذا الصريح يلحق الصريح کے تحت  اس جملے  سے   دوسری رجعی طلاق  واقعی ہوگئی  اس کے بعدچونکہ  میاں بیوی دونوں اکٹھے رہتے رہے ہیں اس لیے اس سےبھی رجوع   ہو گیا اور نکاح برقرار رہا ۔اورپھر جب شوہر نےایک ہفتہ بعد عدت میں مذکورہ  شخص  کو  یہ کہا” کہ آجا میں نے اس کو (اپنی بیوی کو ) چھوڑ دیا  "تو اس کو آ کر لے جا "تو چونکہ یہ جملہ طلاق کے معنی میں صریح  ہےلہذا  الصريح يلحق الصريح کے تحت اس جملے سے تیسری  طلاق واقع ہوگئی۔

اور اگر مذکورہ تحریر سے شوہر  کی طلاق کی  نیت نہیں  تھی تو اس تحریر سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور بعد والے دونوں جملوں سے دور جعی طلاقیں واقع  ہوگئی ہیں  اور عدت کے اندررجوع  کر لینے کی وجہ سے نکاح باقی ہے۔

فتاوی شامی (4/442)میں ہے:وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع، وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو

ہدایہ  (405/2)میں ہے:وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالى : { فأمسكوهن بمعروف } من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمي إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائهادرمختار (4/528)میں ہے:( الصريح يلحق الصريح )فتاوی شامی (4/519)میں ہے:فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال رها كردم أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت

بدائع الصنائع (3/295)میں ہے:"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل { فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره {

ہدایہ  (398/2)میں ہے:وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته : إن دخلت الدار فأنت طالق وهذا بالاتفاق

نوٹ :مذکورہ جواب بیوی کے بھائی کے بیان کے مطابق دیاگیا ہے لہذا اگر شوہر کو اس بیان سے اتفاق نہ ہوا تو مذکورہ جواب کالعدم ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved