• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک طلاق کے بعد رجوع کرلیا، پھر دو طلاقیں اکٹھی دے دیں

استفتاء

جناب مفتی صاحب، السلام علیکم! عرض یہ ہے کہ ہماری شادی کو تقریباً گیارہ سال ہوگئے ہیں، تقریباً  9سال پہلے سسرال کی کسی بات کی وجہ سے ہم میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا، جس کے نتیجے میں انہوں نے مجھے ایک طلاق دی تھی جو کہ 1 ماہ تک رہی اور ہم نے رجوع کر لیا، اس کے بعد بھی ہمارے درمیان کبھی کبھی کسی نہ کسی بات پر تلخ کلامی ہوتی رہتی تھی جو 1 یا  2 ماہ تک ناراضگی کا سبب بن جاتی تھی، میرے شوہر مجھے واپس لے جایا کرتے تھے۔ ابھی 2 اگست کو پھر ہمارے درمیان جھگڑا ہوا، میں تقریباً ایک ہفتے سے بیمار تھی اسی دوران تیسرے دن وہ بھی بیمار  ہوگئے، رات کے وقت ان کے موبائل پر کال آئی، تو میں نے ان کو اشارے سے بتایا لیکن وہ غصے میں تھے، مجھے انہوں نے زور سے دھکا دیا جس کی وجہ سے میں گرگئی، پھر میں باہر جاکر لیٹ گئی، تھوڑی دیر بعد وہ اپنا موبائل لے کر باہر چلے گئے، صبح کو مجھے ناشتہ بھی دیا، میں ناراض تھی اس لئے میں نے ناشتہ نہیں کیا جس پر وہ غصہ ہوئے اس کے بعد میرا بھائی آیا۔

(بھائی کا بیانیہ یہ ہے کہ ) صبح جب میں اپنی بہن کے گھر کچھ سامان دینے کے لئے گیا، تو اس وقت وہ دونوں خاموش بیٹھے ہوئے تھے، میرے پوچھنے پر میرے بہنوئی نے بتایا کہ صبح ہم دونوں کی بحث ہوئی ہے، میری وائف مجھ سے اچھی طرح پیش نہیں آتی، اتنی دیر میں میری بہن نے بھی بولنا شروع کر دیا کیونکہ اس نے میری بہن کی برائیاں گنوانا شروع کر دی تھیں کہ تمہیں کوئی اچھا نہیں سمجھتا، کوئی اپنی طرف بلاتا نہیں، ایسی عورت کو کون رکھے گا؟ فلاں بولتا نہیں، اپنی طرف بلاتا نہیں، میری بہن بیمار تھی، اس نے بھی آگے سے بولنا شروع کر دیا، وہ غصے میں آیا اور میرے سامنے ایک مرتبہ یہ کہا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اسی دوران میری بہن بولی کہ دے ناں پوری طلاق دے ناں، اس پر دوسری مرتبہ بہنوئی نے یہ الفاظ کہے کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ اس کے بعد میرے روکنے اور مزاحمت کرنے پر وہ رک گیا، اس نے بعد میں کہا کہ ’’جاؤ، دفع ہوجاؤ‘‘۔

باقی گذارش ہے کہ آپ اس مسئلے کی نوعیت کا جائز لے کر جواب ارشاد کر دیجئے۔ طلاق دینے والے کا نام ** ہے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: 9 سال پہلے دی گئی طلاق کے الفاظ کیا تھے؟

جوابِ وضاحت: (از زوجہ): ’’میری طرف سے تم فارغ ہو‘‘  کے الفاظ کہے تھے۔ اس کے بعد رجوع کرلیا تھا۔

مزید وضاحت مطلوب ہے کہ: رجوع کس طرح کیا تھا؟ کیا دوبارہ نکاح کیا تھا؟

جوابِ وضاحت: دوبارہ نکاح تو نہیں کیا تھا لیکن میرے شوہر مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے اور ہم اکٹھے رہتے رہے۔

دار الافتاء سے فون کے ذریعے شوہر سے بیان لیا گیا تو اس نے یہ بیان دیا کہ:

’’7 سال پہلے ایک لڑائی کے دوران میں نے ایک طلاق دی تھی جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ فارغ ہو والے الفاظ استعمال نہیں کیے تھے، یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔پھر ابھی چند دن پہلے میں بیمار تھا اور ڈپریشن میں تھا ہماری بہت بحث اور لڑائی ہوئی تو اسی دوران غصے میں،  میں نے دو دفعہ یہی طلاق کا جملہ استعمال کیا تھا، مجھے علم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، اس وقت مجھ سے کوئی خلافِ عادت کام مثلا توڑ پھوڑ وغیرہ سرزد نہیں ہوا۔‘‘

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: شوہر کے بیان کے مطابق جب اس نے پہلی دفعہ طلاق دی تھی تو اس نے یہ جملہ استعمال کیا تھا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ یہ جملہ طلاق کے لیے صریح  ہےجس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوئی، اس کے بعد چونکہ میاں بیوی نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا اس لیے نکاح قائم رہا۔ ایک طلاق کے بعد شوہر کے لیے دو طلاقوں کا حق باقی رہ گیا تھا۔ اس کے بعد حالیہ لڑائی کے وقت شوہر اگرچہ بیمار تھا اور غصے کی حالت میں اس نے یہ الفاظ کہے تھے لیکن یہ غصہ کی ایسی کیفیت نہ تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے اور نہ اس سے اس  وقت کوئی خلافِ عادت قول یا فعل مثلا توڑ پھوڑ وغیرہ سرزد ہوا ہے اور غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر ہوتی ہے، لہٰذا اس وقت شوہر نے جب دو دفعہ طلاق کا جملہ استعمال کیا تو اس سے دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

در مختار (4/443) میں ہے:(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)….. (يقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ….. (واحدة رجعية…..در مختار (5/25) میں ہے:باب الرجعة: بالفتح وتكسر يتعدى ولا يتعدى (هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) …….. (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمسرد المحتار(439/4) میں ہے:وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه……………(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقلبدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved