• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غیرمدخول بہا کو ’’تین بار طلاق دیتاہوں ‘‘کہنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

سوال:پیش کردہ طلاق نامہ کے تناظر میں کیا اب فریقین میں صلح ہوسکتی ہے؟اور لڑکی کی رخصتی ہو سکتی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:نکاح کے بعد لڑکے اور لڑکی کی تنہائی میں کوئی ملاقات ہوئی یا نہیں؟اگر ملاقات ہوئی ہے تو اس کی تفصیل کیا ہے؟

جواب وضاحت:کوئی ملاقات وغیرہ نہیں ہوئی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ رخصتی نہیں ہوئی اور نہ ہی میاں بیوی کی تنہائی میں کوئی ملاقات ہوئی ہے، لہذا منسلکہ طلاقنامہ میں مذکورہ الفاظ(میں اپنی منکوحہ****** کو تین بار طلاق دیتا ہوں )سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی ہےجس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوگیا ہے، لہذا نیا نکاح کر کے صلح ہو سکتی ہے،نئے نکاح میں مہر بھی دوبارہ مقرر ہوگا جو سابقہ مہر کا نصف بھی ہو سکتا ہے اور گواہوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔

توجیہ:

مذکورہ جملہ تین بار متفرق طور پر طلاق دینے کے قائم مقام ہے اور غیر مدخول بہا(جس کی رخصتی نہ ہوئی ہو)کو تین متفرق طلاق دینے سے صرف پہلی طلاق واقع ہوتی ہے ،لہذا نیا نکاح کر کے صلح ہو سکتی ہے۔

حاشیۃ ابن عابدین 4/491 میں ہے:

قوله ( أو أنت طالق مرارا ) في البحر عن الجوهرة لو قال أنت طالق مرارا تطلق ثلاثا إن كان مدخولابها كذا في النهاية.وذكرفي البحرقبله بأكثرمن ورقة عن البزازية أنت علي حرام ألف مرة تقع واحدة.

 وما في البزازية ذكره في الذخيرة أيضا وذكره الشارح آخر باب الإيلاء.

 أقول ولا يخالف ما في الجوهرة لأن قوله ألف مرة بمنزلة تكريره مرارا

متعددة والواقع به في أول مرة طلاق بائن ففي المرة الثانية لا يقع شيء لأن البائن لا يلحق البائن إذا أمكن جعل الثاني خبرا عن الأول كما في أنت بائن أنت بائن كما يأتي بيانه في الكنايات بخلاف ما إذا نوى الثلاث بأنت حرام أو بأنت بائن فإنه يصح لأن لفظ واحد صالح للبينونة الصغرى والكبرى وقوله أنت طالق مرارا بمنزلة تكرار هذا اللفظ ثلاث مرات فأكثر والواقع بالأولى رجعي وكذا بما بعدها إلى الثالثة لأنه صريح والصريح يلحق الصريح ما دامت في العدة ولذا قيد بالمدخول بها لأن غيرها تبين بالمرة الأولى لا إلى عدة فلا يلحقها ما بعدها فاغتنم تحرير هذا المقام فقد خفي على كثير من الأفهام.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved