• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گھر والوں کے دباؤمیں آکر طلاق نامہ پر دستخط کرنا

استفتاء

حلفی بیان

میرے والد صاحب نے پہلے وکیل کو فون کیا اور کہا کہ میں اپنے بیٹے کو طلاق دلوانا چاہتا ہوں اورتینوں اکٹھی دینی ہیں اس کےبعد میں اور میرے چاچو دونوں وکیل کے پاس گئے تووکیل نے کہا کہ بیٹا پہلے ایک ہوتی ہے ،میں نے اپنے ابو سے بات کی اورکہا کہ وکیل ایسے کہہ رہے ہیں ،میرے والد صاحب نے وکیل کو فون کیا اورکہا کہ تینوں اکٹھی دینی ہیں ، وکیل نے مجھے ساتھ لیا مجھ سے دستخط کروائے اورتینوں طلاقیں لکھوادیں ۔لڑکی میرے ساتھ ٹھیک تھی اورمیری والدہ کے ساتھ بھی ٹھیک تھی لیکن میرے گھر میں میرے دادادادی اورمیرے والد صاحب کی چلتی ہے ،اس لیے میں نے مجبور ہوکر طلاق نامے پر دستخط کردیئے ،میری بیوی مجھ سے طلاق نہیں لینا چاہتی تھی اوراس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے تو اس کا کوئی حل ہے توبتادیں

وضاحت مطلوب ہے:مجبوری کی تفصیل کیا ہے؟

جواب وضاحت:گھروالے سارے کہہ رہے تھے کہ یہاں سے سامان اٹھا ؤ اورچلے جاؤ بس یہی مجبوری تھی اور میں نے طلاقنامہ کو پڑھا تک نہیں تھا اورجب میں نے دستخط کیے مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس میں کیا کچھ لکھاہے ۔بس والد صاحب کے بتانے سے مجھے پتہ چلاکہ تین طلاق کانوٹس تیار کروایاجارہا ہے اوردستخط کرتے ہوئے مجھے معلوم تھا کہ طلاق کے نوٹس پر دستخط لیے جارہے ہیں۔

طلاق نامہ کی عبارت :

منکہ مسمی******* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لہذا مزید کشیدگی اورمقدمہ بازی سے بچنے کی خاطر اورمسماۃ مذکوریہ کے مطالبہ پر مسماۃ ******…..کو طلاق ثلاثہ ،یعنی طلاق ،طلاق،طلاق دے کر زوجیت خود سے خارج کرتا ہوں ….لہذا طلاقنامہ ہذا بقائمی ہوش وحواس خمسہ بلاجبر واکراہ غیرے روبرو گواہان حاشیہ تحریر کردیا ہے تاکہ سند رہے اوربوقت ضرورت کام آوے۔2020-06-09

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ آپ نے طلاقنامہ پڑھے بغیر دستخط کیئے ہیں لیکن چونکہ آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہ تین طلاقوں کا طلاقنامہ ہے اسی طرح اگر چہ آپ نے اپنے والد صاحب کے دباؤمیں دستخط کیئے ہیں لیکن چونکہ یہ دباؤ ایسا نہیں جوشرعا قابل اعتبار ہو لہذا مذکورہ صورت میں  تین طلاقیں واقع ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے،لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

درمختار مع ردالمحتار (9/217) میں ہے:

وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ.

(قوله: وهو نوعان) أي الإكراه، وكل منهما معدم للرضا لكن الملجئ، وهو الكامل يوجب الإلجاء، ويفسد الاختيار فنفي الرضا أعم من إفساد الاختيار والرضا بإزاء الكراهة، والاختيار بإزاء الجبر ففي الإكراه بحبس أو ضرب لا شك في وجود الكراهة وعدم الرضا وإن تحقق الاختيار الصحيح إذ فساده إنما هو بالتخويف بإتلاف النفس، أو العضو.

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله – عز وجل – {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] .

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved