• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصہ کی حالت میں طلاق ثلاثہ کا حکم

استفتاء

میری شادی کو پانچ سال ہو چکے ہیں ، میرا ایک بیٹا ساڑھے چار سال کا ہے اورا یک بیٹی ڈیڑھ سال  کی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے  کہ جب سے میری شادی ہوئی ہے،  میری بیوی نہ میرے ساتھ اور  نہ میرے گھر والوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہو سکی ہے کیونکہ میری بیوی  میں ’’میں ‘‘  (تکبر) بہت ہے ، نہ چھوٹے بڑے کی تمیز ہے اور نہ یہ مانتی ہے کہ میں نے یہ غلط کیا ہے اور  گھما پھرا کر میری بہن کو یا میری والدہ کو  قصور وار بنا دے گی اور وہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں  کہ  شاید ہم نے کیا ہوگا لیکن جب میں نے غور کیا تو قصور زیادہ میری بیوی کا ہی نکلتا تھا۔ اس بات کا اندازہ مجھے ایسے ہوا کہ وہ بعد میں مجھ سے بھی لڑنے لگی اور یہاں تک بولا کہ جب بیوی کے خرچے نہیں اٹھا سکتے تو شادی کیوں کی؟ جبکہ میں صبح جاب پر جاتا ہوں  اور شام کو آ کر آرام بھی نہیں کرتا اور گھر میں سلائی بھی کرتا ہوں یہاں تک کہ بچوں کے اور ان صاحبہ کے کپڑے بھی سلائی کردیتا ہوں اور  1500 روپے ہر  مہینہ  دیتا ہوں اور میری   والدہ گھر میں پورا  راشن بھر وا کر رکھتی ہیں ،اس پر  بھی مجھ سے لڑائی کرتی ہے، اس لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ  تقریبا تین سال پہلے غصہ میں طلاق کے الفاظ تین مرتبہ ادا ہوئے  کہ "میں نے تمہیں طلاق دی "جس کا فتوی الجامعۃ  الستاریۃ الاسلامیۃ ،یونیورسٹی روڈ کراچی  سے لیا  کہ میاں بیوی اکھٹے رہ سکتے ہیں لیکن  میری بیوی کی حرکتیں سدھری نہیں اور تو اور  ایک آدمی جو گانے بجانے کا کام کرتا ہے  اور جس کو میری بیوی اپنا منہ بولا بھائی کہتی ہے  ،اس کو نہ  اس کا بھائی اور نہ گھر کا کوئی فرد جانتا ہے  ،اس  سے میری بیوی باتیں کرتی ہے ۔میں نے بیوی کو پتہ نہیں کتنی دفعہ اس سے بات کرنےسے منع کیا ہے،ابھی تین مہینے پہلے میں نے بیوی سے پوچھاکہ مجھ سے چھپ کر ابھی بھی اس سے  بات کرتی ہو؟ تو میری بیوی نے  اتنا جھوٹ بولا کہ اس نے قرآن پر  ہاتھ رکھ کر کہا کہ میں بات نہیں کرتی ہوں لیکن جب میں نے کمرے میں پوچھا تو کہتی  ہے کہ میں نے ایسا نہیں کہا    جب میرا اسی بات پر غصہ زیادہ ہو ا  تو میں نے اسکو کہا کہ تو  میرے لئے حرام ہے اور ایک  مرتبہ نہیں سات یا آٹھ دفعہ کہا ہے اور 4 سے 5 ماہ ہوئے  ہیں نہ میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں اور نہ اسکے ساتھ کوئی ازدواجی تعلق قائم کیا ہے اور نہ میں اس عورت کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں کیونکہ نہ اب اس کے لئےمیرے دل میں کوئی پیار بچا ہے اور نہ کوئی احساس بچا ہے اور اگر میں اس کے ساتھ رہتا  بھی ہوں تو اس طرح رشتہ نہیں نبھا سکوں گا جیسا ایک میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:(1)  تین طلاق کے الفاظ بولتے وقت غصہ کس درجہ  کا تھا ؟  کیا کوئی خلاف عادت کام   بھی ہوا تھا؟ (2)جب طلاق دے دی ہے اور اس کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتےتو ہم سے کیا راہنمائی چاہیے؟

جواب وضاحت: (1)غصہ بہت زیادہ تھا  طلاق دے کر گھر سے باہر چلا گیا تھا اور کوئی خلاف عادت کام نہیں ہوا۔(2)دو باتوں میں راہنمائی چاہیے کہ ابھی میں نے جوالفاظ نکالے کہ ’’آپ میرے لئے حرام ہو‘‘کیا اس سے طلاق ہو گئی ؟اور اس سے پہلے جو میں نے طلاق کے الفاظ نکالے اور فتوی لے کر واپس رہنا شروع کیا ،کیا اس طرح رہنا جائز تھا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تین سال پہلے جب شوہر نے تین مرتبہ یہ کہا تھا کہ” میں نے تمہیں طلاق دی "تو  اسی وقت تینوں طلاقیں واقع ہو گئی تھیں جن کی وجہ سے اس کی بیوی  اس پر حرام ہو گئی تھی اور رجوع یا صلح کی گنجائش باقی نہیں تھی اور تین طلاق کے بعد میاں بیوی کا اکٹھے رہنا جائز نہیں تھا  لہذا میاں بیوی اس پر توبہ و استغفار کریں۔ مذکورہ صورت میں اگرچہ  شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی تھی لیکن غصہ کی کیفیت ایسی نہیں تھی کہ شوہر کو علم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اورنہ ہی  شوہر سے خلاف عادت  کوئی قول یا فعل صادر ہوا لہذا مذکورہ صورت میں  تینوں  طلاقیں واقع ہو گئی  تھیں۔

نیز واضح رہے کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں چاہے اکھٹی ایک مجلس میں دی جائیں یا الگ الگ مجالس میں دی جائیں۔جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین،تابعین اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔

علامہ بدر الدین العینی رحمہ اللّٰہ تعالی صحیح بخاری کی شرح عمدة القاری(232/1)میں تحریر فرماتے ہیں:حيث قال مذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم الأوزاعى و النخعى والثورى وابو حنيفة و اصحابه و مالك و اصحابه و الشافعى و اصحابه و احمد و اصحابه و اسحاق و ابو ثور و ابو عبيدة و آخرون كثيرون على ان من طلق امراته ثلاثا يقعن ولكنه يأثم

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح(6/293) میں ہے:قال النووى اختلفوا فيمن قال لامراته انت طالق ثلاثا فقال مالك و الشافعى واحمد و ابو حنيفة و الجمهور من السلف والخلف يقع ثلاثا و فيه ايضا:وذهب جمهور الصحابة و التابعين ومن بعدهم من ائمة المسلمين الى انه يقع ثلاث

شامی (4/439)میں ہے:قلت وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها إنه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده وهذا لا إشكال فيه۔الدر المختار و حاشیہ ابن عابدین (4/510)میں ہے:فروع:كرر لفظ الطلاق وقع الكل وان نوى التأكيد دينقوله:(كرر لفظ الطلاق)بأن قال للمدخولة:انت طالق انت طالق او قد طلقتك قد طلقتك او انت طالق قد طلقتك او انت طالق و انت طالق۔۔۔۔۔۔۔۔قوله:(وان نوى التأكيد دين)اى:وقع الكل قضاء

بدائع الصنائع(3/295)میں ہے:اما الطلقات الثلاث فحكمها الاصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية ايضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عزوجل(فان طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره)سواء طلقها ثلاثا متفرقا او جملة واحدة۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved