• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  غصے میں بیوی کو ’’ جاؤ آزاد ہو میری طرف سے‘‘ کہنے  کا حکم

استفتاء

میں مسمات *** ہوں، مجھے ادارہ ہذا کے محترم و مکرم مفتی صاحبان سے اپنے ازدواجی معاملے میں دینی رہنمائی اور فتویٰ درکار ہے، میرا شوہر**ہے، جو مجھے اکثر و بیشتر شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا رہتا ہے، میرے ہاں چوتھے بچے کی پیدائش بڑے آپریشن سے ہوئی اور میں شدید تکلیف میں مبتلا تھی کہ بچے کی پیدائش کے تقریبا دس دن بعد مجھ پر تشدد کیا اور پھر چوالیسویں دن بتاریخ 23 جولائی بروز جمعہ حسب معمول مجھے مارا پیٹا اور شدید جسمانی تشدد کیا، اسی مارکٹائی کے دوران اس نے غصے میں کہا کہ ’’اتنی مارپیٹ کے بعد رہنا تو تم نے ہے نہیں، لینی تو تم نے طلاق ہی ہے، جاؤ آزاد ہو میری طرف سے‘‘ اس کے بعد سے اب تک میرا اس کے ساتھ کوئی ازدواجی تعلق نہیں ہے، اس سے پہلے بھی اس کے تشدد کی وجہ سے میں دو مرتبہ خلع کا کیس دائر کر چکی ہوں لیکن دونوں مرتبہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے میں نے کیس واپس لے لیا تھا، لیکن اب میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی،  مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں فتوی درکار ہے کہ  مذکورہ الفاظ سے طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟  اور اگر ہوچکی ہے تو عدت کے حوالے سے کیا احکامات ہوں گے؟ براہ کرم تحریری صورت میں رہنمائی فرمائیں، جزاکم اللہ خیرا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں اگر واقعتۃً آپ کے شوہر نے غصے کی حالت میں یہ الفاظ کہے ہیں کہ ’’ جاؤ آزاد ہو میری طرف سے‘‘   تو ان الفاظ کی رُو سے آپ کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو چکی ہے،   جس کی وجہ سے آپ کا نکاح ختم ہو چکا ہے۔ کیونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں ، جن سے غصے  کی حالت میں شوہر کی طلاق کی  نیت نہ بھی ہو تو  بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

(2) مذکورہ صورت میں آپ کی عدت  مکمل تین حیض ہے۔  جس کی ابتداء طلاق کے الفاظ بولنے کے وقت سے ہے۔

(9) درمختار (4/521) میں ہے: (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لاو فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نيةدرمختار (5/42) میں ہے:(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)درمختار  (183/5) میں ہے:(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)……….(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية.امدادالاحکام(2/610) میں ہے:اور چوتھا جملہ یہ ہے کہ "وہ میری طرف سے آزاد ہے” اس کنایہ کا حکم در مختار میں صریح موجود ہے کہ غضب و مذاکرہ میں بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved